ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم نے انسانی ارتقاء پر نظر رکھنے والے ماہرین او رمورخین کی مدد سے یہاں پائے جانے والے عجیب و غریب محجر آثار کی حقیقت معلوم کرلی ہے اور بتایا ہے کہ یہ نشانات اب سے 11ہزار سال قبل دنیا میں عام طور پر نظر آنے والے اس ممالک جانور کے ہیں جسے انسان شکار کرتا تھا اور پھر اسے کھا بھی لیتاتھا۔ ماہرین حیوانات کا کہنا ہے کہ ان ممالیہ جانوروں کے سائز اور قد میں فرق ہوتا تھا۔ شمالی امریکہ سے جو باقیات ملی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 6سے ساڑھے 6فٹ لمبے ہوتے تھے۔ بیشتر سائنسدان اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ آہستہ آہستہ رینگنے والا یہی جانور جسے’’ سلوتھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے شکار کا محور بن گیا۔ وہ نہ صرف اسے پکڑتے، ہلاک کرتے بلکہ اسے کھا بھی لیتے تھے او ر اس جانور کے دنیا سے ناپید ہونے کے اسباب میں اس جانور کی قابل خوردنی ہونے والی حیثیت اور خصوصیت کو بھی بڑا دخل ہے۔ مقامی سائنسدانوں نے جو باقیات دریافت کی ہیں ان کی ظاہری شکل و صورت قدیم زمانے کے انسان اور بڑے سائز کے سلوتھ کا اشتراک نظر آتی ہے۔ اس جانور کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ بہت ہی آہستہ آہستہ بلکہ رینگتا ہوا چلتا تھا ۔ تاریخی اعتبار سے ان جانوروں کا وجود اب سے 11ہزار سال تک رہا۔ اب جو باقیات دریافت ہوئی ہیں وہ اس علاقے سے ملی ہیں جنہیں وائٹ سینڈ نیشنل مونوون کہا جاتا ہے جو نیو میکسیکو سے پائی گئی ہیں۔