آئی ایس آئی اور ایم آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا۔ نواز شریف

اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کررہے ہیں، سماعت کی ابتدا میں نواز شریف روسٹرم پر آئے اور انہوں نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے دیئے گئے سوالات کے جوابات پڑھ کر سنائے۔ انہوں نے کہا کہ میری عمر 68 سال ہے اور میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔ جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایزعدالت پیش نہیں کیےگئے، جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایزکی بنیاد پرفیصلہ نہ دیا جائے۔سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، آئین کا آرٹیکل 10 مجھے شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے سے میرا فیئر ٹرائل کا حق متاثرہوا، مجھے جے آئی ٹی کے ممبران پر اعتراض تھا۔ یہ اعتراض پہلے بھی رکارڈ کرایا۔ جے آئی ٹی کے ایک رکن بلال رسول میاں محمد اظہر کے بھانجے ہیں، میاں اظہر سابق گورنر پنجاب رہ چکے ہیں اور اب پی ٹی آئی سے منسلک ہیں، میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر کی عمران خان کے ساتھ بنی گالہ میں ملاقات کی تصویریں سامنے آچکی۔ بلال رسول خود بھی (ن) لیگ کے کھلے مخالف اور پی ٹی آئی کے سپورٹر ہیں، بلال رسول کی اہلیہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی فعال ممبر تھیں۔نواز شریف نے جے آئی ٹی کے دوسرے رکن عامر عزیز پر اپنا اعتراض دہراتے ہوئے کہا کہ عامر عزیز 2000 میں میرے خاندان کے خلاف ریفرنسز میں تفتیشی تھے، عامر عزیز نے پرویز مشرف کے دورمیں حدیبیہ پیپرملز کیس کی تحقیقات کیں۔ عرفان منگی کو بھی جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا حالانکہ ان کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے۔جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا سے متعلق نوازشریف نے کہا کہ تحقیقات میں واجد ضیاءکی جانبداری عیاں ہے ، واجد ضیاء نے اپنے کزن کے ذریعے تحقیقات کرائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی میں شامل آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر نعمان اور ایم آئی کے بریگیڈئیر کامران بھی شامل تھے، ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا، سول ملٹری تناؤ پاکستان کی تاریخ کے 70 سال کے زائد عرصے پر محیط ہے، پرویز مشرف کی مجھ سے رقابت 1999سے بھی پہلے کی ہے، پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے بعد تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا، موجودہ سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کے اثرات جے آئی ٹی رپورٹ پر پڑے۔نواز شریف نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے حکم کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے میرا شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا،۔سابق وزیراعظم نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کیے گئے اس لیے ان کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے۔نواز شریف نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلف اسٹیل قرض کی رقم سے بنائی گئی، گلف اسٹیل کے 25 فیصد حصص کی فروخت کے معاہدے سے متعلق ایم ایل اے پیش نہیں کیا گیا جب کہ معاہدے پر شہباز شریف اور طارق شفیع کی طرف سے دستخطوں سے انکار سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا، طارق شفیع اور شہباز شریف نے میری موجودگی میں دستخطوں سے انکار نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو مجھے حراست میں لے لیا گیا اور سعودی عرب بھجوادیا گیا، میرے علم میں ہے کہ میرے والد نے حسین اور مریم نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا ڈائریکٹر جب کہ حسن نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا شیئر ہولڈر نامزد کیا تھا۔سابق وزیراعظم نے عدالتی سوالنامے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دبئی فیکٹری اور العزیزیہ ملز سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا، قومی اسمبلی میں تقریر یا قوم سے خطاب میں نہیں کہا کہ ایون فیلڈ پراپرٹی سے میرا کوئی تعلق ہے، ایون فیلڈ پراپرٹیز کا اصل یا بے نامی دار مالک نہیں ہوں جب کہ نیلسن اور نیسکول کمپنی کے بیئرر شیئرز سرٹیفکیٹ کبھی میرے تھے نہ میرے پاس رہے۔ انہوں نے کہا کہ5 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا، خطاب دبئی فیکٹری، العزیزیہ سمیت مختلف معاہدوں سے متعلق تھا، حسین نواز نے جو معلومات فراہم کیں وہ میرے علم میں نہیں تھیں جب کہ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کی حسن نواز وضاحت کر سکتا ہے۔نوازشریف نے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 127 میں سے 55 سوالات کے جوابات دیے جس کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔