اسددرانی نے انتخابی پیشگوئی میں آئی ایس آئی کی صلاحیت محدودقراردی

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے کتاب اسپائی کرونیکلز میں آئی ایس آئی کے بیرون اوراندرون ملک کردار کے بارے میں بھی بات کی ہے جہاں بیرون ملک امور پران کے خیال میں آئی ایس آئی کی کارکردگی شاندار رہی وہیں انہوں نے پاکستان میں انتخابی نتائج کی درست پیش گوئی کے معاملے میں اس خفیہ ادارے کی صلاحیت کو محدود قراردیا ہے۔ ’’پاکستان کی گہری ریاست‘‘ کے عنوان سے باب میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سربراہ اے ایس دولت نے بھی آئی ایس آئی کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ جنرل (ر) اسد درانی نے لکھا ہے کہ  ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ یا پس پردہ رہ کر ریاستی امور چلانے والی قوت ہر ملک میں ہوتی ہے، آئی ایس آئی کو یہ لقب اس کی فعال کارکردگی کی وجہ سے ملا، امریکی صدر جارج بش سینئر کے مشیر قومی سلامتی جنرل برینٹ اسکوکرافٹ نے 1991 کی خلیجی جنگ کے 2 برس بعد اعتراف کیا تھا کہ کویت پر قبضے کے حوالے سے عراقی افواج کی صلاحیت کے بارے میں آئی ایس آئی کا تجزیہ سی آئی اے کے تجزیے سے بہتر تھا۔ جنرل درانی نے کہا کہ میرے خیال میں سی آئی اے نے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جبکہ ہمارے میدان میں کوئی اثاثے نہیں تھے، ہم نے بہت سوچا سمجھا تخمینہ لکھا۔ تاہم اسی باب میں آگے چل کر جنرل(ر) اسد درانی نے لکھا کہ سیاسی معاملے میں تجزیہ کرنے کے حوالے سے آئی ایس آئی کی صلاحیت محدود ہے، جنرل یحیٰ نے 1970 کے الیکشن اس لیے کرائے کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ ان انتخابات میں کوئی جماعت واضح اکثریت نہیں لے سکے گی اور ان کا اقتدار جاری رہے گا، لیکن مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں بھٹو نے میدان مار لیا اور یحیٰ خان کہیں کے نہ رہے۔ جب میں آئی ایس آئی کا سربراہ تھا، 1990 کے انتخابات کے بارے میں رپورٹیں آئیں، (جن کی بنیاد پر) میں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو بہت معمولی نقصان ہوگا لیکن نتائج آئے تو پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا، یہ تھا تجزیہ۔ جنرل درانی کا کہنا تھا کہ گراس روٹ سطح پر انٹیلی جنس کے لیے پولیس کی اسپیشل برانچ (خفیہ پولیس) سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سانحہ لال مسجد اور سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے حوالے دیئے، جہاں بقول اسد درانی پولیس زیادہ مؤثر کردار ادا کرسکتی تھی لیکن اس پر اعتبار نہیں کیا گیا۔ سابق آئی ایس آئی چیف اور اے ایس دولت نے آئی ایس آئی کے ایک اور سربراہ اوراسد درانی کے پیشرو جنرل حمید گل کا بھی ذکر کیا اور ان کی تعریف کی۔ تاہم اسد درانی کا کہنا تھا کہ 1988 کے انتخابات کے حوالے سے حمید گل کا تجزیہ بھی درست نہیں نکلا، اگرچہ پیپلز پارٹی کو ملنے والی مجموعی نشستوں سے متعلق ان کے اعداد و شمار درست تھے لیکن پنجاب اور سندھ کے بارے میں نتائج الٹ ثابت ہوئے، جنرل حمید گل نے پیش گوئی کی کہ پنجاب میں پی پی کو زیادہ نشستیں ملیں گی اور سندھ میں کم۔ لیکن اس کے برعکس پی پی نے سندھ میں میدان مار لیا اور پنجاب میں اسے کم نشستیں ملیں۔ اسی باب میں اسد درانی نے مزید کچھ دعوے بھی کئے ہیں۔ بقول ان کے جب وہ ایم آئی میں تھے تو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ نے بھارتی ہائی کمشنر منی ڈکشت کو اپنے دفتر بلا کر بتایا کہ پاک فوج ضرب مومن کے نام سے مشقیں کرنے والی ہے اور یہ مشقیں سرحد سے دور کی جائیں گی۔ جس پر بھارتی سفیر نے کہا کہ وہ یہ پیغام اپنے ملک پہنچا دیں گے۔ جنرل درانی کے بقول اس کے بعد جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو ایک موقع پر انہوں نے بھارتی ہائی کمشنر کے استقبالیے میں شرکت کی اور ان سے علیحدگی میں بات چیت کی۔

( یہ خبر25 مئی کو امت اخبار میں شائع ہوئی )