امریکا میں ایک نئی تھیراپی کے ذریعے جسم کے مدافعتی نظام کو نئی جلا بخش کرایک ایسی خاتون کی زندگی بچالی گئی ہے جو کینسر کی آخری اسٹیج پر تھیں۔ اس تھیراپی میں ان کے جسم میں کینسر کے خلاف مدافعت کے حامل 90 بلین خلئے داخل کئے گئے۔
دو بچوں کی ماں 52 سالہ جوڈی پارکنز دینا کی پہلی خاتون ہیں جن کے سینے کے کینسر کواس تیکنیک کے ذریعے مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔ ڈاکٹروں نے جوڈی پارکنزکو بتایا تھا کہ ان کے پاس اب فقط تین ماہ کی زندگی بچی ہے لیکن آج دو برس گزرچکے ہیں اوراب ان کے جسم میں کینسر کا نام و نشان نہیں۔
امریکا کے نیشنل کینسرانسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ تھیراپی جسے ایمیونو تھیراپی کہا جارہا ہے ابھی تجرباتی مراحل میں ہے لیکن اسے ہر قسم کے کینسر کے علاج کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جوڈی پارکنز فلوریڈا میں رہتی ہیں ان کا کینسر آخری اسٹیج پر تھا اوراسے اس وقت موجود طریقہ علاج سے ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ان کے سینے میں ٹینس کی گیند جتنی رسولی تھی جو جگر کے علاوہ جسم کے باقی حصے میں بھی کینسر پھیل چکا تھا۔
اخبار’’مرر‘‘ سے گفتگو میں جوڈی پارکنز نے بتایا کہ اس تھیراپی کے ایک ہفتہ بعد ہی انھوں نے کچھ محسوس کرنا شروع کیا۔ وہ محسوس کرسکتی تھیں کہ انکے سینے میں موجود رسولی گھٹ رہی تھی اورایک دو ہفتے بعد یہ مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ اب جوڈی پارکنز بھرپورزندگی جی رہی ہیں۔
نیشنل کینسرانسٹی ٹیوٹ میں سرجری کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹراسٹیون روزن برگ نے بتایا ہے کہ ابھی اسے بڑے پیمانے پراستعمال کرنے سے پہلے اس پر مزید تجربات کرنے کی ضرورت ہے۔
مریض کے جسم میں موجود رسولی کو جنیاتی طور پر پرکھا جاتا ہے تاکہ جانا جا سکے کہ وہ کونسی غیرمعمولی تبدیلیاں ہیں جن کی وجہ سے کینسرمدافعتی نظام میں سامنے آیا ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق جوڈی پارکنز کے اندرموجود 62 جنیاتی خرابیوں میں سے صرف چارایسے راستے تھے جو اٹیک کا سبب بن سکتے ہیں۔
اس صورتحال میں ماہرین مریض کے خون میں موجود سفید خلیوں کا جائزہ لیں گے اور جو کینسر پر حملہ کرنے کے قابل ہوں گے انھیں نکال لیں گے اور لیبارٹری میں ان کی افزائش کر کے مریض کے جسم میں داخل کریں گے۔
49 سالہ جوڈی پارکنز کے جسم میں نوے بلین سفید خلیے داخل کئے گئے۔ ڈاکٹر روزن برگ نے بتایا کہ جو تبدیلی کینسر کی وجہ بنی تھی وہی اب طاقت بن کر اس کا علاج کرے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک مریض پراس تھیراپی کے نتائج ہیں اوراب بڑے پیمانے پر تجربات کی ضرورت ہوگی تاکہ ان نتائج کی تصدیق ہوسکے۔ ڈاکٹر روزن برگ کہتے ہیں کہ ابھی اس سلسلے میں بہت کام کرنا باقی ہے۔