اسلام آباد :امام کعبہ شیخ صالح بن عبداللہ نے کہاہے کہ انفرادی اور تنظیمی جہاد کی کسی بھی صورت میں کوئی گنجائش نہیں یہ اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے خواہ وہ کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو ں ۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے زیادہ نقصانات ہونگے جیسا کہ ہمارے سامنے ہے کہ ایسے اقدامات کی وجہ سے دشمن ہمارے مسلمان ملکوں میں داخل ہوچکے ہیں اور وہاں پر قابض ہوگئے اور یہ موقع ایسے افراد اور تنظیموں کی وجہ سے دشمنوں کوملا ہے ۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلمان ملکوں کی جانب سے مغرب کی رائے کو ماننے کے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ ان چیزوں کا تعلق دین سے نہیں بلکہ مالی تعلقات کی وجہ سے ہونا چاہئے ۔ مصلحتیں کمزوری کی بنا پر کی جاتی ہیں جس طر ح اللہ کے نبی نے حدیبیہ کے موقع پر صلح کی لیکن بعد میں صورتحال تبدیل ہوگئی۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں اجازت دی ہے کہ مسلمان اہل کتاب خاتون سے شادی کرسکتا ہے لیکن جب وہ شادی کرے گا تو اس کواس خاتون سے محبت بھی ہوگی کیونکہ یہ احادیت کے عین مطابق عمل ہے لیکن ہم کو سمجھنا چاہئے کہ ایک فطری محبت ہے اورایک دینی محبت ہے۔ اس لئے کسی سے فطری محبت تو ہوسکتی ہے لیکن دینی محبت سے صرف مسلمان سے ہی ہوسکتی ہے ۔
امام کعبہ نے کہاہے کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے زوال اور پستی کا شکارہونے کی وجہ ہے کہ امت بٹی ہوئی ہے اور اختلافات کا شکار ہے ۔ ایک دوسرے کوبرداشت نہیں کرتی ۔ بٹ جانا ہی اصل شرہے ۔ اس لئے جس حد تک ہو آپس کے اختلافات کو کم کیا جائے اور امت کی مفادات کو آپس کے مفادات پر ترجیح دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک مخصوص گروہ یا مکتبہ فکر کا رہنما اپنے اور اپنے مکتبہ فکرکے مفادات کود وسروں پرترجیح دینے کی کوشش کرتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہئے ۔مسالک کی نمائندگی کرنے والی حکومتوں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ معاملہ پوری امت کوکہیں بھی لاحق ہو اس کا حل یہی ہے کہ انسان کو تعصب اور خواہش پرستی کو چھوڑ کرحق کا ساتھ دینا چاہئے ۔ اگر یہ ہوجائے تو تفرقہ بازی کا حل تلاش کیا جاسکتاہے اور وہ اسی وقت ہے کہ جب امت کی مصلحتوں کو ذاتی خواہشات پر مقدم رکھا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر بننے والی تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک کھیتی بوئی گئی اور نوجوانوں کو استعمال کرلیا گیا کیونکہ ان میں دینی حمیت زیادہ ہوتی ہے ۔ داعش اوراس سے ملتی جلتی تنظیموں کااسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن افسو س اس بات کا ہے کہ اس حقیقت کاکھوج بڑی دیر سے لگایا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جہاد اسلام کی چھت ہے اور حدیث کے مطابق یہ قیامت تک جاری رہے گا لیکن جہاد ایک منظم حکمران کے زیر سایہ ہی ہو سکتا ہے اوراگر کوئی اس سے ہٹ کر جہاد کرے گا تو وہ ناکام ہوگا اور یہ تنظیمیں ناکام اس لئے ہی ہوئی ہیں اور داعش اس کی ایک مثال ہے ۔انہوں نے کہا کہ صاحب صلاحیت کوبرائی کوہاتھ سے روکناچاہئے اور جہاں صلاحیت ختم ہو جائے تووہاں زبان سے روکنا چاہئے اور دل سے برا سمجھنا ایمان کاآخری درجہ ہے ۔
مرتد اور کفر کے فتوے لگائے جانے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بڑا واضح ہے کہ ارتداداور کفر سے متعلق معاملات پر کوئی کسی پر کفر یا ارتداد کا فتویٰ نہیں لگا سکتا ۔ اگر کوئی کسی پر ایسا الزام لگاتا ہے تو اس کوعدالت میں شہادتوں کے ساتھ یہ ثابت کرناپڑے گا ۔ یہ صرف اور صرف اسلامی حکو مت کی ذمہ داری ہے کسی انفرادی شخص کی نہیں۔سعودی عرب کے زیر سایہ فوجی اتحاد سے متعلق انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کااتحاد خوشی کی بات ہے ۔ اس طرح کے اگر مزیداتحاد بھی بنتے ہیں تو یہ امت مسلمہ کو اکٹھا کرنے کا سبب ہیں اور یہ اتحاد آگے چل کر کسی ایک ملک کے خلاف نہیں ہوگا بلکہ یہ مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لئے اور مسلمان ممالک کا ساتھ دینے کیلئے اور باطل کے خلاف استعمال ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ اتحاد کسی ایک مسلم ملک کے خلاف ہے کیونکہ کسی بھی اسلامی ملک کو اس اتحاد کا حصہ بننے سے نہیں روکا گیا ۔