لاہور:چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم 3رکنی بنچ نے موبائل کمپنیز اور ایف بی آر کی جانب سے موبائل کارڈز پر وصول کئے جانے والے ٹیکس اور چارجز معطل کرتے ہوئے موبائل کارڈز پر تاحکم ثانی ان کی کٹوتی روک دی ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ٹیکس نیٹ میں نہ آنے والے پاکستانی پر کیسے ٹیکس لگا دیا؟ عدالت امتیازی سلوک پر مبنی کسی بھی پالیسی کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے ازخود کیس کی سماعت کی،چیئرمین ایف بی آرنے عدالت میں پیش ہو کر موقف اختیار کیا کہ موبائل کالز پر سروسز چاجز کی کٹوتی کمپنیز کا ذاتی عمل ہے،انہوں نے بتایا کہ 130ملین افراد موبائل استعمال کرتے ہیں،ملک بھر میں ٹیکس دینے والے افراد کی مجموعی تعداد 5فیصد ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جو شحض ٹیکس نیٹ میں نہیں آتا اس سے ٹیکس کیسے وصول کیاجا سکتا ہے ؟چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل تو ڑیڑھی والا بھی موبائل فون استعمال کرتا ہے وہ ٹیکس نیٹ میں کیسے آگیا؟عدالت نے قرار دیا کہ 100روپے کا کارڈ لوڈ کرنے پر64.38روپے وصول ہوتے ہیں جو غیر قانونی ہیں۔چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا نے وضاحت پیش کی کہ موبائل فون کال پر سروسز چارجز کی کٹوتی کمپنیز کا ذاتی عمل ہے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 5 فیصد لوگوں سے ٹیکس لینے کے لئے 130ملین پر موبائل ٹیکس کیسے لاگو ہوسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکس دہندہ اور نادہندہ کے درمیان فرق واضح نہ کرنا امتیازی سلوک ہے،آئین کے تحت امتیازی پالیسی کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس نے موبائل کارڈز پر وصول کیا جانے والے ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس، سروسز چارجز، ایکسائز ڈیوٹی اور ایکسائز ٹیکس کی وصولی تاحکم ثانی روکنے کا حکم دے دیاہے، عدالت نے ایف بی آر کو پالیسی وضع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔