پاناما پیپز کے ایک بار پھر سنسنی خیز انکشافات

پاناما میں آف شور کمپنیاں بنانے میں مدد دینے والی لاء فرم موزیک فونسیکا کی نئی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ پاناما لیکس کے بعد موزیک فونسیکا کے موکلین پر خوف اور گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ ان میں سے کئی ایک پاکستانی ہیں، جنھوں نے بیرون ممالک دولت چھپانے کے راز افشاں ہونے کے خدشے کے پیش نظر اپنے منصوبے ترک کردیئے جبکہ لاء فرم موزیک فونسیکا سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ اپنے 75 فیصد کلائنٹ سے لاعلم تھی اور کلائنٹ کی شناخت کے لئے اس کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔
تفصیلات کے مطابق 2016 میں پاناما لیکس کے انکشاف کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ نے دو سوئس بینکوں میں کھاتے کھولنے کا منصوبہ ترک کر دیا تھا۔ پاناما پیپرز کے ذریعے ان کی دو بے نامی شیل کمپنیاں سامنے آئی تھیں، تاہم جب ان کمپنیوں نے سوئس بینک میں اکاؤنٹ کھولنا چاہا تو بتایا گیا تھا کہ مالکان میں سابق سربراہ کرکٹ بورڈ، ان کی اہلیہ اور بیٹا شامل ہیں۔
ذریعے کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ساس ثمینہ درانی نے پاناما پیپرز کے اجرا کی وجہ سے اپنے بیٹے عاصم اللہ درانی کو کمپنی کی منتقلی میں عجلت کی۔ ارمانی ریور کمپنی اسد کو تحفے میں دی گئی۔ اندازے کے مطابق اس کی لاگت 10 لاکھ پاؤنڈ اسٹرلنگ بتائی گئی، جس کا ذریعہ ان کے مرحوم والد اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر شاکر اللہ درانی کی جانب سے بچت بتایا گیا۔ شریف خاندان کی ملکیت نیلسن اور نیسکول کمپنیز نے 2014 میں اپنا ایجنٹ تبدیل کیا، اس لئے تازہ انکشافات میں اس سے متعلق کوئی تفصیلات شامل نہیں۔
رپورٹ کے مطابق سابق اٹارنی جنرل جسٹس (ر) ملک عبدالقیوم نے خود کو بے نامی کمپنی سے لاتعلق ظاہر کیا، تاہم رپورٹ کے مطابق ملک قیوم نے دو نامعلوم کمپنیوں چیمبر ویل فنانشل اور فرن برج ریسورسز کی قانونی طور پر نمائندگی کی اور دونوں کو سوئس بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ جس پر اُن کی اہلیہ کے دستخط بھی موجود ہیں۔
پاناما کی قانونی فرم موسیک فونسیکا نے 12 لاکھ نئی دستاویزات جاری کی ہیں جس میں انکشاف ہوا ہے کہ کمپنی پاناما میں آف شور کمپنیوں کے 75 فیصد اصل مالکان سے متعلق لاعلم تھی جب کہ برٹش ورجن آئرلینڈ کی 72 فیصد آف شور کمپنیوں کے اصل مالکان سے متعلق بھی موسیک فونسیکا کو کوئی علم نہیں تھا۔
موزیک فونسیکا نے 3 مارچ 2016 کو جاری کردہ دستاویزات کے بعد آف شور کمپنیوں کے اصل مالکان کی شناخت کے لئے ان کے موکلوں سے رابطے شروع کئے۔ اس دوران کمپنی نے لیک ہونے والی اپنے موکلوں کی ایک کروڑ سے زائد فائلیں دیکھیں۔ عالمی سطح پر جانچ پڑتال کے بعد موزیک فانسیکا نے حکمت عملی میں 2 بڑی تبدیلیاں کیں اور اپنے موکلوں سے تعلق کو چھپانے کے لئے اپنا کاروباری نام بدل کر ساموا میں سینٹرل کارپوریٹ سروسز کا نام اختیار کیا۔
ذریعے کے مطابق پاناما دستاویز میں کئی بھارتی موکلوں کے خفیہ مالیاتی معاملات سامنے آئے ہیں اور دستاویز منظر عام پر آنے کے بعد کئی بھارتی سرمایہ کاروں نے موزیک فانسیکا کو کمپنی بند کرنےکی درخواست کی۔