چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کے ہی ایک اورتین رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کر کے بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ کو لوگوں سے پیسے وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
عدالت نے قومی احتساب بیورو کو بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کے خلاف سپریم کورٹ کے ہی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر فیصلہ ہونے تک کارروائی سے روک دیا گیا ہے۔
عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اوران کے بچوں کے نام جائیداد کی تفصیلات بھی فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے الاٹیز سے حاصل کی جانے والی رقم کا 20 فیصد عدالت میں جمع کرانے جبکہ 80 فیصد تنخواہوں اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو ماہانہ آڈٹ رپورٹ بھی جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
بدھ کو سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض وکلا کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت کی اجازت کے بغیر ہی ملک ریاض روسٹم پرآگئے اورچیف جسٹس سے ان کا مکالمہ بھی ہوا۔
چیف جسٹس نے ملک ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ڈان آپ کے اعمال اورلوگوں نے بنایا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اُنھیں ایک ایک پائی کا حساب دینا پڑے گا جس پربحریہ ٹاؤن کے مالک نے عدالت سے سوال کیا کہ اُنھوں نے ایسا کونسا گناہ کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ڈہائی سال کے عرصے میں ایک نیا شہراتنی آسانی سے تعمیر نہیں ہوسکتا۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر آج ملک ریاض کو گرفتار کر لیا گیا تو بحریہ ٹاون کا کام رک جائے گا۔
چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل کی سماعت کی خبر کہیں نہیں چلی ایسا لگتا ہے کہ پیسہ لگایا گیا ہے، جس پر ملک ریاض کا کہنا تھا کہ وہ قسم اُٹھانے کے لئے تیار ہیں کہ اُنھوں نے کوئی پیسہ نہیں دیا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ قرآن کو بیچ میں نہ لائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا حکومتیں گرانے اوربنانے میں ان کا کردار نہیں ۔
بنچ کے سربراہ نے ملک ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے وہ کسی کے ساتھ مل کر حکومتیں تبدیل کرا لیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب توبہ کرلیں اوراب وہ کہیں اورنہیں بلکہ سپریم کورٹ میں کھڑے ہیں۔
اس سے پہلے چیف جسٹس کی سربراہی میں ہی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے منگل کو اپنے حکم نامے میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو کراچی میں شروع کئے گئے منصوبے میں پلاٹ خریدنے والوں سے رقم وصول کرنے سے روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلے میں اس معاملے کو نیب کو بھیجنے اور تین ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی طرف سے دائر کی گئی نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے لیے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا ہے جو چار ہفتوں کے بعد اس کی سماعت کرے گا۔