ختم نبوت کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری،زاہدحامداور انوشے رحمان ملوث قرار

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ختم نبوتﷺ قانون میں ترمیم کے معاملے پرکیس کا تفصیلی فیصلہ سنادیا ہے۔

جسٹس شوکت عزیزصدیقی کا فیصلہ 172 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ کے اہم نکات بھی فیصلے کا حصہ ہیں جس کے صفحہ نمبر163 پرراجہ ظفرالحق کمیٹی کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں راجہ ظفرالحق کمیٹی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے اپنے فیصلے میں شناختی کارڈ ، پاسپورٹ بنوانے اور ووٹر لسٹ میں نام ڈلوانے کے لئے مذہب کا بیان حلفی دینا ضروری قراردیا گیا ہے۔
جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ختم نبوت کے معاملے پرارکان پارلیمنٹ کی اکثریت اس مسئلے کو اہمیت دینے میں ناکام رہی ہے۔

ارکان پارلیمان کی جانب سے ختم نبوت ﷺ کے معاملے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جتنی دی جانا چاہیئے تھی جبکہ پارلیمنٹ آئین پاکستان کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے والے کو بھی بے نقاب کرنے میں ناکام رہی ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ختم نبوت کا معاملہ ہمارے دین کی اساس ہے، پارلیمنٹ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے ، حساس اداروں میں ملازمت کیلئے بھی بیان حلفی لیا جائے، مردم شماری اور نادرا کوائف میں شناخت چھپانے والوں کی تعداد خوفناک ہے، تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے کیلئے مسلم ہونے کی شرط لازمی قراردی جائے، شناخت کا نہ ہونا آئین پاکستان کی روح کےمنافی ہے، ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کی واپسی احسن اقدام ہے، راجہ ظفر الحق کمیٹی نے انتہائی اعلیٰ رپورٹ مرتب کی ہے۔

تفصیلی فیصلے میں راجا ظفرالحق کی رپورٹ کے مطابق انوشہ رحمان اورایم این اے شفقت محمود نے بل کو ری ڈرافٹ کیا، انوشہ رحمان کو فارم کا مسودہ نظرثانی کے لئے دیا گیا تھا، کمیٹی کے اگلے اجلاس میں انوشہ رحمان نے نظرثانی شدہ فارم پیش کیا، نظرثانی شدہ فارم کو جانچ پڑتال کی ہدایت کے ساتھ منظورکیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ میں نام لے کربتایا گیا ہے کہ سب کمیٹی کی ممبرانوشے رحمان اورسب کمیٹی کے کنوینر زاہد حامد جو اس وقت وفاقی وزیرقانون تھے اس معاملے میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں لیگی رہنماؤں نے حلف ناموں میں تبدیلی کرنے ، ری ڈرافٹنگ کرنے اوران کو دوبارہ قانونی شکل میں لانے کا کام کیا تھا۔ لہٰذا قانون میں ترمیم کی تمام ترذمہ داری انوشے رحمان اورزاہد حامد پرعائد ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ مسلم لیگ نون نے ختم نبوت ﷺ قانون مین ترمیم کے معاملے پر وفاقی وزیرقانون زاہد حامد سے تو استعفیٰ لے لیا تھا لیکن انوشے رحمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی ۔

خیال رہے کہ ختم نبوت ﷺ کے قانون میں ترمیم سے متعلق 7 مارچ کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 9 مارچ کو مختصر طورپرسنایا گیا تھا۔ 9 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ختم نبوت ﷺ سے متعلق ترمیم کے کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ پارلیمینٹ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مزید اقدامات کرے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ختم نبوت ﷺ کے قانون میں ترمیم کے معاملے پر5 ماہ سماعتیں ہوئی تھیں۔

ختم نبوتﷺ قانون میں تبدیلی کے بعد تحریک لبیک کی جانب سے نومبر2017 میں 22 روز تک دھرنا دیا گیا تھا جو بعدازاں اس وقت کے وزیرقانون زاہد حامد کے استعفے اورایک معاہدے کے بعد ختم ہوا تھا۔جس کے بعد راجہ ظفرالحق کو اس ترمیم کی تحقیقات کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا ،اس کمیٹی میں احسن اقبال اورمشاہد اللہ خان بھی شامل تھے۔ تاہم راجہ ظفر الحق کی تحقیقاتی رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا تھا البتہ وفاقی وزیرقانون زاہد حامد اس معاملے پراپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے تاہم اب اسلام ہائیکورٹ نے راجہ ظفرالحق کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔