ارجنٹینا میں ایک نئی دریافت نے ان دیو قامت جانوروں کے بڑھنے سے متعلق نئے شواہد مہیا کئے ہیں۔
یہ دریافت سائنسی جریدے نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولوشن میں شائع کی گئی ہے۔
ماہرِمعدوم حیوانات کا کہنا ہے کہ یہ جانوراس قدر بڑا حجم حاصل کرنے کے لئے اپنے جسم میں موجود پرندوں جیسے پھیپھڑوں اورتیزی سے بڑھنے کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے ایک انوکھی حکمتِ عملی اپناتے تھے۔
تازہ دریافت کے دوران ارجنٹینا کے شمالی مغربی حصے میں محققین کو ڈائنوسارکی باقیات ملی ہیں۔ ریسرچرز کوڈائنوسار کے چار ڈھانچے ملے ہیں۔ یہ اب تک دریافت ہونے والے ڈائنو سارز کی نئی قسم ہے ۔
ریسرچرزکا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک نئی مخلوق ہے اس لیے ہم نے اس کا نام انجینٹیا پرائما رکھا ہے۔ یہ لاطینی لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’پہلا دیو قامت‘۔
یہ ڈائنوسارتین کروڑ سال قدیم ہیں جس دورمیں لمبی گردن والے سبزی خورڈیپلوڈوکس اوربراچیو سارز ہوا کرتے تھے۔
یہ زیادہ بڑا نہیں تھا ۔ اس کا وزن 10 ٹن کے لگ بھا رہا ہوگا لیکن یہ دریافت حیران کن ہے کیونکہ یہ ڈائنو سارز کے ارتقا کے دور میں جلدی آگیا۔
یہ نئی مخلوق انجینٹیا پرائما اوردیگر چھوٹی مخلوقیں ایک گروہ کی صورت میں رہتے تھے۔
یہ ایک گروہ سارو پوڈو مورفس‘ کا رکن ہے جس کا مطلب ہے یہ چھپکلی کے پیروں کی قسم ہے۔ یہ بالآخر چارٹانگوں والے جانور بنے جو کرہ ارض پر چلنے والے سب سے بڑے جانور تھے۔
ان ڈائنوسارز کی لمبی گردن اوردم تھی تاہم ڈیپلوڈوکس جتنی لمبی نہیں۔ ان کی گردن 10 میٹر تک لمبی تھی۔
بعد میں آنے والے ڈائنو سارز کی طرح اس کی بھی پرندوں جیسی سانس کی تھیلیاں تھیں جو شاید بڑے جانوروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ضروری تھی اوراس سے بڑی مقدار میں آکسیجن فراہم ہوتی تھی۔
ان کی ہڈیوں میں افزائش کے ہالوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تیزی سے بڑے ہوئے تھے۔
ریسرچرزکا کہنا ہے کہ انھوں نے ہڈیوں کے مشاہدے سے دیکھا ہے کہ ان کی افزائش بہت تیزی سے ہوئی تھی۔ ان ڈائنوسارز کے حجم بڑھنے میں ایک سے زیادہ عناصرشامل تھے۔
ان کے خیال میں شاید اس سے بڑے اورعجیب ڈائنوسارز ہوں جو ابھی دریافت ہونا باقی ہیں۔