واشنگٹن: چار لاکھ تیتیس ہزار لوگوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتا چلا کہ صبح جلد اٹھنے والوں کی نسبت رات کو دیر تک جاگنے والوں میں مرنے کا امکان دس فیصد زیادہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دیر سے اٹھنے والے مردوزن کئی قسم کے دماغی اور جسمانی امراض میں زیادہ آسانی سے مبتلا ہو جاتے ہیں۔
تحقیق میں حصہ لینے والوں کی عمریں 38 اور 73 سال کے درمیان تھیں۔سائنس دانوں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ’جلد سحر خیز‘ (جلد اٹھنے والے) ہیں، ’معتدل سحر خیز‘ ہیں، یا پھر ’سخت دیر خیز‘ ہیں۔ یہ تحقیق کرونوبیالوجی انٹرنیشنل نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے بعد سائنس دانوں نے ان مردوزن کا ساڑھے چھ سال تک مشاہدہ کیا۔ عمر، جنس، قومیت، تمباکو نوشی کی عادت، وزن اور معاشی حالت جیسے عناصر مدِنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے معلوم کیا کہ جلد سحر خیزوں میں قبل از وقت موت کے امکانات سب سے کم تھے۔اور وہ جتنی دیر سے جاگتے تھے، ان کے مرنے کا خطرہ بھی اسی تناسب سے بڑھ جاتا تھا۔
دوسری طرف رات کو تادیر جاگنے والوں میں نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے کے امکانات بھی نوے فیصد زیادہ تھے، جب کہ ذیابیطس چمٹنے کا امکان تیس فیصد زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ ان میں کئی اور قسم کے امراض کا خطرہ بھی زیادہ تھا۔ سائنس دانوں نے یہ تو نہیں معلوم کیا کہ صحت کے ان مسائل کی وجہ کیا ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ دنیا سحر خیزوں کی ہے اور دیر خیزوں کو اس میں اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں نیورولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹن نوسٹن کہتے ہیں: اس کی وجوہ میں نفسیاتی دباؤ، جسم کے لحاظ سے غلط وقت پر کھانا کھانا، مناسب ورزش نہ کرنا، نیند پوری نہ کر پانا، رات اکیلے جاگتے رہنا، اور منشیات یا شراب کا استعمال شامل ہو سکتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں تادیر جاگتے رہنے سے متعدد قسم کے غیر صحت مندانہ رویے جنم لیتے ہیں۔’’عوامی صحت کا مسئلہ‘‘ نامی اس تحقیق کے ایک منصف میلکم وون شینٹز ہیں جن کا تعلق یونیورسٹی آف سرے سے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دیر خیزوں کو جو مسائل پیش آتے ہیں وہ عوامی صحت کا مسئلہ ہیں جنھیں مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔’’ہمیں چاہیے کہ دیر خیزوں کو کام دیر سے شروع کرنے اور بعد میں ختم کرنے دیں۔ہمیں اس موضوع پر مزید تحقیق کرنی چاہیے کہ ہم دیر خیزوں کو اپنے جسم کو سورج کی روشنی کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کی کوشش میں مدد دیں۔‘‘
تاہم پروفیسر نوسٹن کہتے ہیں کہ دیر خیز اب بھی کسی حد تک اپنی سونے کی عادات کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق جسم کی حیاتیاتی گھڑی کا 40 سے 70 فیصد حصہ جینیاتی ہے، جب کہ باقی کا تعلق ماحول یا عمر سے ہوتا ہے۔پروفیسر نوسٹن کے مطابق اس کا ایک حصے پر آپ کو اختیار ہے، ایک پر نہیں۔
نیند کے ماہرین حیاتیاتی گھڑی کو بدلنے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کرتے ہیں:اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ صبح کے وقت تیز روشنی میں رہیں لیکن رات کو نہیں۔اس کوشش کریں کہ نیند کا وقت باقاعدہ ہو، اور جہاں تک ممکن ہو دیر سے نہ سوئیں۔صحت مندانہ طرزِ زندگی اختیار کریں ۔ذہن میں رکھیں کہ آپ کی نیند کا وقت کتنا اہم ہے ۔جس حد تک ممکن ہو، کوشش کریں کہ رات جلد سوئیں اور صبح جلد اٹھیں۔