پیپلزپارٹی رہنما آصف علی زرداری گھوٹکی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے
پیپلزپارٹی رہنما آصف علی زرداری گھوٹکی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے

14 لوگوں پر ٹکی سندھ حکومت – 18 کا اعتماد متذلزل

سندھ حکومت کے خلاف وفاقی حکومت بالآخر کھل کر سامنے آگئی ہے۔ نہ صرف وزیراعلیٰ سندھ سمیت پیپلز پارٹی کے متعدد رہنمائوں کے نام ای سی ایل میں شامل کردیئے گئے ہیں بلکہ جمعہ کو وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اور پیپلز پارٹی کے سندھ سے رکن اسمبلی خرم شیر زمان نے سندھ حکومت کو چلتا کرنے کے اشارے دے دیئے ہیں۔

سندھ حکومت کو رخصت کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ گورنر راج یا پھر پیپلز پارٹی سے اس کے اراکان اسمبلی کو توڑ کر ایک نئی حکومت بنانا  جس میں تحریک انصاف اس کی اتحادی جماعتیں اور یہ ٹوٹے ہوئے ارکان شامل ہوں گے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے اندر ’’فارورڈ بلاک‘‘ کی گونج کئی دن سے سنائی دے رہی ہے۔

سندھ کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر راج کے بجائے فارورڈ بلاک کے ذریعے سندھ میں تحریک انصاف کی قیادت میں نئی حکومت بنائے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر راج کے نفاذ سے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور مقتدر حلقوں کو بدنامی مول لینا پڑے گی جو وہ غیرضروری طور پر سر لینے کیلئے تیار نہیں۔

نمبر گیم

سندھ اسمبلی میں نمبر گیم بھی فارورڈ بلاک والا آپشن زیادہ آسان بنا رہا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اس وقت حکومتی اراکان کی تعداد 97 ہے۔ اپوزیشن کے ارکان 71 ہیں۔ جبکہ حکومت سازی کیلئے درکار ارکان کی تعداد 85 ہے۔ اس طرح اپوزیشن کو حکومتی بینچوں پر قبضہ کرنے کیلئے صرف 14 ارکان  کی حمایت درکار ہے۔

ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی میں کم ازکم 18 ارکان ایسے ہیں جن کی پارٹی قیادت سے وفاداریاں متزلزل ہوچکی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی ایک پارٹی اجلاس میں ان 18 افراد کے نام معلوم کیے ہیں۔

ان ارکان کے قریبی ذرائع کاکہناکہ اگر 24 دسمبر کو بینکنگ کورٹ آصف علی زرداری کی گرفتاری کا حکم دے دیتی تو کئی لوگ پاکستان سے باہر چلے جاتے۔

تاہم دوسری طرف پیپلز پارٹی کے آپشنز بھی محدود نہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے معاملے میں بعض قوتوں کو ایک سب سے بڑی ناکامی یہ ہوئی کہ مقدمات کے باوجود اس انداز میں لوگ پارٹی سے نہیں توڑے جا سکے جس طرح انتخابات سے پہلے مسلم لیگ(ن) سے ارکان ٹوٹ ٹوٹ کر تحریک انصاف میں گئے تھے۔

اس کا بڑا سبب آصف زرداری کی طرف سے مقابلے کیلئے ڈٹ جانا ہے۔ سابق صدر نے پہلے ہی پارٹی کو یکجا رکھنے کیلئے دو رخی مہم شروع کردی ہے۔ اس کا ایک پہلو ’متزلزل‘ ارکان اسمبلی کو اپنے طرف دوبارہ مائل کرنا ہے تو دوسرا عوامی رابطوں کے ذریعے کارکنوں اور رائے عامہ کو متحرک کرنا ہے۔

سندھ کارڈ اور انتہائی راستہ

وہ اس کے لے سندھ کارڈ کھیلنے کو بھی تیار ہیں۔ جمعہ کو گھوٹکی جلسے میں انہوں نے دونوں پہلوئوں پر کام کیا۔ ایک جانب جہاں وہ فاروڈ بلاک کے امکانات ختم کرنے کیلئے مہربرادران سے ملے تو دوسری جانب انہوں نے جلسے میں سندھ کے حقوق کا نعرہ لگایا۔

ذرائع کاکہنا ہے کہ پیپلز پارٹی قوم پرستی کی سیاست کے ذریعے اپنی حکومت بچانے کی پوری کوشش کرے گی لیکن اگر حکومت نہ بچا سکی تو پھر ایک انتہائی قدم بھی اٹھا سکتی ہے۔ یہ انتہائی قدم اسمبلیوں سے استعفے دے کر کنارہ کش ہونے کا ہے۔

اس کے نتیجے میں تحریک انصاف حکومت سیاسی دبائو میں آجائے گی۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقین ہے کہ بیک وقت مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو جیلوں میں بند رکھنا اور پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانا تحریک انصاف کے لیے بہت مہنگا سودا ثابت ہوگا۔