سابق صدر آصف علی زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ میں اس کی صوبائی حکومت کو تحریک انصاف حکومت کی جانب سے محصور کردیئے جانے کے بعد اتوار کو مختلف محاذوں پر ہونے والی پیشرفت نے ملک کا سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھا دیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) نے ایسے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے بجائے لاتعلقی کے اشارے دیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جارحانہ طریقے سے مقابلے کا اعلان کیا ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ حکمران تحریک انصاف نے سندھ میں پی پی کا فارورڈ بلاک بنانے کیلئے ’’قانونی‘‘ طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ تحریک انصاف کے ذرائع نے پیپلز پارٹی کے ارکان کو توڑ کر سندھ اسمبلی میں 89 ارکان کی حمایت کا دعویٰ کردیا ہے۔
سیاست کے بڑھتے درجہ حرارت نے خدشات پیدا کردیئے ہیں کہ کہیں سب کچھ جل کر راکھ نہ ہوجائے۔
یہ سیاسی جنگ جلسوں کے پنڈالوں سے لے کر سوشل میڈیا کے میدانوں تک اور بند کمروں سے لے کر ٹی وی اسکرینوں تک ہر جگہ لڑی جا رہی ہے۔
بلاول کی ممکنہ گرفتاری
درجہ حرارت بڑھانے والے بیانات میں تازہ اضافہ بلاول بھٹو کی ٹوئیٹس ہیں۔ تحریک انصاف کے شوشل میڈیا اکائونٹس سے گذشتہ دنوں طعنہ دیا گیا تھا کہ احتساب شروع ہونے پر پیپلز پارٹی کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں اور یہ کہ پیپلز پارٹی سندھ کارڈ استعمال کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس بات کا جواب ٹوئیٹر پر دیا۔ انہوں نے کہاکہ ’’جی ہاں ، سندھ سے چیخیں آرہی ہیں کہ، سب سے ذیادہ گیس پیدا کرنے والے سندھ کو گیس نہیں دی جارہی۔ سندھ سے چیخیں آرہی ہیں کہ سندھ کو پانی نہیں دیا جارہا- سندھ سے چیخیں آرہی ہیں کہ سندھ کی ذراعت تباہ ہورہی ہے اور صنعتیں تباہ ہورہی ہیں-‘‘
دوسری ٹوئیٹ میں بلاول کا کہنا تھا،’’پورے پاکستان سے چیخیں آرہی ہیں کہ بجلی مہنگی، گیس مہنگی، پٹرول مہنگا، غریب کے سر پر نہ چھت، نہ پیٹ میں روٹی، نہ تن پہ کپڑا، یہ چیخیں اب دھاڑ میں بدل رہی ہیں اور یہُ دھاڑ آپکی حکومت گرادیگی۔‘‘
پورے پاکستان سے چیخیں آرہی ہیں کہ بجلی مہنگی، گیس مہنگی، پٹرول مہنگا، غریب کے سر پر نہ چھت، نہ پیٹ میں روٹی، نہ تن پہ کپڑا، یہ چیخیں اب دھاڑ میں بدل رہی ہیں اور یہُ دھاڑ آپکی حکومت گرادیگی۔
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) December 30, 2018
اس سے پہلے اتوار کی صبح اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ سے صحافیوں نے پوچھا کہ کیا حکومت بلاول بھٹو زرداری کو گرفتار کرسکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ گرفتاری آسان نہیں لیکن موجودہ حکومت سے کچھ بعید بھی نہیں۔ انہوں نے بلاول کی گرفتاری پر سخت ردعمل کا انتباہ بھی دیا اور کہا کہ ’’یہ انتہائی خطرناک کھیل ہوگا۔‘‘
اسی قسم کا انتباہ مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب نے بھی دیا۔ کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کا فاروڈ بلاک تو نہیں بنے گا تاہم وفاقی حکومت چار ایم این ایز پرٹکی ہے جو ادھر ادھر ہوگئے تو وفاقی حکومت گر جائے گی۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو ان ہائوس تبدیلی اور احتجاج کے ذریعے تختہ الٹنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ پی پی نے اپنا قلعہ بھی موضود بنانا شروع کردیا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اتوار کو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور اہم صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کو ملاقات پر بلایا اور انہیں پارٹی ارکان اسمبلی کو کنٹرول کرنے کیلئے اہم ہدایات دیں۔ ذرائع کے مطابق بلاول نے یہ بھی واضح کیا کہ پی پی وزیراعلیٰ سندھ کو تبدیل کرنے کا مطالبہ تسلیم نہیں کرے گی۔
نواز لیگ کی لاتعلقی
پنجاب یا وفاق میں تحریک انصاف کی حکومتوں کا تختہ ’’ان ہائوس‘‘ تبدیلی کے ذریعے الٹنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کو ایک ہونا پڑے گا۔ گذشتہ دنوں پی پی اور ن لیگ میں تعاون کے اشاروں کے باوجود تازہ صورتحال میں کوئی کم ازکم سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کے معاملے پر دونوں جماعتوں میں کوئی تعاون نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ(ن) پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی تو چاہتی ہے تاہم احتجاج کے حوالے سے خاموش رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اتوار 30 دسمبر کو پارٹی کا یوم تاسیس تھا لیکن اس موقع پر نہ تو مریم نواز شریف اور نہ ہی حمزہ شہباز شریف کی طرف سے کوئی بیان سامنے آیا۔ دونوں کے والد قید میں ہیں لہٰذا بالخصوص مریم کی جانب سے کسی بیان کی توقع تھی۔ تاہم انہوں نے کسی تقریب سے خطاب نہیں کیا اور ان اطلاعات کی تصدیق کردی کہ وہ خاموشی کا فیصلہ کرچکی ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کی جانب سے یوم تاسیس کی سب سے جاندار تقریب نارروال میں ہوئی جہاں سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے خطاب کیا۔ احسن اقبال نے جہاں نواز شریف کی بے گناہی کا ذکر کیا وہاں تحریک انصاف حکومت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔ ایک تقریب اسلام آباد میں بھی ہوئی جہاں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے خطاب کیا۔ ایک اور تقریب لاہور میں راجہ ظفرالحق کی صدارت میں طے تھی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کا یوم تاسیس30 دسمبر کو ملک بھر میں منایاجائے گا: ترجمان پاکستان مسلم لیگ (ن) مریم اورنگزیب
یوم تاسیس کی مرکزی تقریب کے پروگرام میں تبدیلی، ایک مرکزی تقریب کے بجائے مختلف تقاریب کے انعقاد کا فیصلہ
— PML(N) (@pmln_org) December 28, 2018
تاہم مسلم لیگ(ن) کے ترجمان مریم اورنگزیب نے نے دو روز قبل ہی بتا دیا تھا کہ ایک مرکزی تقریب کا فیصلہ منسوخ کردیا گیا ہے اور مختلف شہروں میں چھوٹی چھوٹی تقاریب منعقد کی جائیں گی۔ نواز لیگ فی الحال سڑکوں پر احتجاج سے دور رہنے کیلئے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکمت عملی
پیپلز پارٹی کے انتباہ کے باوجود تحریک انصاف سندھ میں حکومت بدلنے کی کوششوں سے پیچھے ہٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کوششوں کا محور فی الحال گھوٹکی کے علاقے خان گڑھ میں گوہر پیلس ہے۔ جہاں علی گوہر مہر تحریک انصاف کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ علی گوہر مہر سے تین دن میں تحریک انصاف کے وزیر مملکت شہریار آفریدی ، گورنر سندھ عمران اسماعیل اور پارٹی جنرل سیکریٹری حلیم عادل شیخ نے ملاقاتیں کیں۔ حلیم عادل شیخ اتوار کو بھی ان سے ملے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان بھی علی گوہر مہر کو فون کر چکے ہیں۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں حلیم عادل شیخ نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف سے رابطے کرنے والے پی پی ارکان اسمبلی کی تعداد بڑھ رہی ہے اور جلد ’’خوشخبری‘‘ ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی میں تبدیلی کے لیے سارے آئینی آپشن استعمال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ فیڈریشن اورسندھ کے درمیان سردارعلی گوہر مہر پل کا کردار ادا کر رہے ہیں، یہ تو نہیں معلوم کہ پی پی میں فارورڈ بلاک بن رہا ہے یا بیک ورڈ، لیکن بلاک ضرور بن رہا ہے۔
علی گوہر مہر نے کہا کہ امید ہے بہتری ہوگی، اختلافات ایشوز پر ہوتا ہے دوستی تو سب سے ہے،یہی چاہتے ہیں کہ مسائل بہتر طریقے سے حل ہوں۔
پیپلز پارٹی سندھ میں تقسیم ڈالنے کیئلے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی اس سلسلے میں سرگرم ہیں اور وہ متوقع طور پر پیر کو سندھ کا دورہ کریں گے۔ ذرائع کے مطابق اتوار کو انہوں نے فون پر علی گوہر مہر سمیت سندھ میں سیاسی رہنمائوں سے رابطے کیے ہیں۔
تحریک انصاف کی پوری کوشش ہے کہ سندھ حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے ان پر کسی غیرآئینی اقدام کا الزام نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے رہنما مسلسل گورنر راج یا ہارس ٹریڈنگ کے امکانات مسترد کر رہے ہیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اتوار کو بھی ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ گورنر راج نہیں لگایا جائے گاجبکہ ہارس ٹریڈنگ کرپشن ہے۔
لیکن عمران اسماعیل نے تحریک انصاف کی ’’قانونی‘‘ یا ’’آئینی‘‘ حکمت عملی کے بارے میں بھی اشارہ دے دیا۔ انہوں نے کہاکہ اگر پیپلز پارٹی کے لوگ ان سے الگ ہونا چاہتے ہیں یا فارورڈ بلاک بنانا چاہتے ہیں تو وہ خود سنبھالیں۔
ذرائع کے مطابق یہ وہی مؤقف ہے جو پیپلزپارٹی نے بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) کی سابق حکومت کا تختہ الٹنے اور اس میں فارورڈ بلاک بنوانے کیلئے اختیار کیا تھا۔ یعنی ن لیگ کے ارکان نے خود الگ گروپ بنایا ہے۔ تاہم صورتحال میں ایک نمایاں فرق ہے۔ بلوچستان میں مںحرف ارکان کی تعداد ن لیگ سے وفادار رہنے والوں سے زیادہ تھی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ممکنہ باغی ارکان پارٹی کے کل ارکان اسمبلی کا بمشکل ایک تہائی ہوں گے۔
ایسے میں پی پی کے باغی ارکان اپنے بیشتر ساتھیوں کی رائے سے ہٹ کر کیسے ’’قانونی طور پر‘‘ الگ راہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے بھی اتوار کو ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ سندھ میں نہ تو گورنر راج لگے اور نہ ہی 18 ویں آئینی ترمیم ختم کی جائے گی۔
تاہم پیپلز پارٹی کے ناصر حسین شاہ کاکہنا تھا کہ وزیراطلاعات اوروزیراعظم سندھ فارورڈ بلاک بنانے کیلئے ہی سندھ کا دورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علی گوہر مہر کی مقامی طور پر اپنی سیاسی حیثیت ضرورت ہے تاہم وہ بڑی تبدیلی لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
فاروڈ بلاک کیلئے پیپلزپارٹی کے یہ خدشات کچھ ایسے بے بنیاد نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما فیصل ووڈا نے اتوار کو کہا کہ گورنر سندھ پر بڑی ذمہ داری آسکتی ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے اندر فاروڈ بلاک یقینی ہے، پیپلزپارٹی کے فاورڈ بلا ک میں 20 سے 26 ارکان جاسکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی انتہائی اقدام کے طور پر اسمبلیوں سے استعفے دے کر احتجاجی تحریک کا آغاز کر سکتی ہے۔ ایک دفعہ یہ تحریک شروع ہوگئی تو شاید مسلم لیگ(ن) کی قیادت اس کا حصہ بننے پر مجبور ہوجائے کیونکہ قائدین پر ان کارکنوں کادبائو ہوگا جو انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر پہلے ہی احتجاج کرنا چاہتے تھے۔