بنگلہ دیش میں عام انتخابات کیلئے 30 دسمبر کو ہونے والی پولنگ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک پیغام زیرگردش ہے۔ لوگ اسے پیغام کو ری ٹوئیٹ کر رہے ہیں یا کاپی پیسٹ کر رہے ہیں۔ بنگلہ زبان میں لکھے گئے اس پیغام میں چھپا المیہ دنیا بھر کے جمہوریت پسند محسوس کرسکتے ہیں۔
لکھا ہے:
افسوسناک خبر۔ بنگلہ دیش کو قتل کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش میں جمہوریت قتل کردی گئی۔ بنگلہ دیش میں ووٹ کو قتل کردیا گیا۔
جنم: 16/12/1971
علالت: 05/01/2014
وفات: 30/12/2018
آج بطور بنگالی دنیا سے بات کرتے ہوئے ہم شرمندہ ہیں۔
শোক সংবাদ: বাংলাদেশ নিহত।বাংলাদেশের গনতন্ত্র নিহত।বাংলাদেশের ভোটাধিকার নিহত।
জন্ম: ১৬/১২/১৯৭১ ইং
অসুস্হ: ০৫/০১/২০১৪ইং
মৃত্যু: ৩০/১২/২০১৮ইংবিশ্বের কাছে বাঙ্গালী বলে পরিচয় দিতে লজ্জিত আজ আমরা
— 💞 য়ানিতা রিপন 💞 (@yanita_ripon) December 30, 2018
ووٹ کا حق چھینے جانے پر رونے والے صرف سوشل میڈیا صارفین ہی نہیں ہیں۔ اپوزیشن اتحاد جاتیا اوکیا فرنٹ کے سربراہ کمال حسین نے اتوار کی صبح جب دھاندلی سامنے آنے پر پریس کانفرنس کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک ووٹ کے حق کے نام پر لیا گیا تھا لیکن اب یہی حق نہیں مل رہا۔ بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا کے جیل میں ہونے اور ان پر الیکشن لڑنے کی پابندی کے باعث کمال حسین ہی اپوزیشن کی قیادت کر رہے ہیں۔
شیخ حسینہ واجد 2008 میں الیکشن جیت کر جب انتخابات میں آئی تھیں تو ان پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ لیکن جب انہوں نے جنوری 2014 کے انتخابات کرائے تو حکومت کی طرف سے دھاندلی کے عزائم اتنے واضح تھے کہ بی این پی نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی موت کے اعلان والی ٹوئیٹس میں بنگلہ دیش کی علالت کی تاریخ 5 جنوری 2014 لکھی گئی ہے۔
30 دسمبر کو حسینہ واجد نے ایک بار پھر انتخابات کرائے اور رہی سہی کسر پوری کر دی۔
ان انتخابات کے نتائج دن بھر پونے والے واقعات اور عوامی لیگ کی ڈھٹائی کی عکاسی کرتے ہیں۔ بنگلہ دیشی اخبار پروتھو مالو کے مطابق جن 300 نشستوں پر انتخابات ہوئے ان میں سے 288نشستیں عوامی لیگ اور اس کی قیادت میں قائم گرینڈ الائنس نے جیت لیں۔ بی این پی کے اتحاد اوکیا فرنٹ کو صرف 6 نشستیں ملیں۔ باقی دیگر جماعتوں نے حاصل کیں۔ اس لینڈ سلائیڈ فتح کے ساتھ حسینہ واجد نہ صرف حکومت بنائیں گی بلکہ وہ اپنی مرضی کی قانون سازی بھی بآسانی کر سکیں گی۔ پہلے ہی حسینہ واجد پر بھارت نوازی میں حد سے گزر جانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
اپوزیشن جماعت بی این پی نے کہا ہے کہ 300 میں سے 221 انتخابی حلقوں میں ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں میں جانے سے روکا گیا۔ اپوزیشن کے مطابق ملک بھر میں عوامی لیگ کے غنڈے پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کرتے رہے۔ بیشتر ہلاکتیں بھی اسی دوران ہوئیں۔
انتخابات پر سیکورٹی کے لیے کئی علاقوں میں فوج تعینات کی گئی تھی۔ اس کے باوجود تشدد جاری رہا۔ بی بی سی نے ایک ویڈیو میں پولنگ اسٹیشنوں پر پہلے سے بھرے بیلٹ باکسز دکھائے۔
Voting in Bangladesh election disrupted by violence
[tap to expand]https://t.co/tQuiSI8RT1 pic.twitter.com/FGWuFlK9Mp— BBC News (World) (@BBCWorld) December 30, 2018
تاہم بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر کے ایم نور الہٰدا نے دھاندلی کے الزامات پر کہا کہ اگر بی این پی کے پولنگ ایجنٹ پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں آئے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
الیکشن سے ایک روز قبل بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل عزیز احمد نے کہا تھا کہ اس مرتبہ 47 برسوں میں سب سے زیادہ پرامن انتخابات ہوں گے۔ جنرل عزیز کا کہنا تھا کہ 50 ہزار اہلکار انتخابی ڈیوٹی کے لیے تعینات کیے گئے ہیں جو دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے 17 ہلاکتوں کی تصدیق کی جبکہ بنگلہ دیش سے بعض ذرائع ہلاکتوں کی تعداد 30 سے زائد بتا رہے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کے انتخابات کو ہر کسی نے برا کہا ہو۔ بھارت کے الیکشن کمیشن نے اس الیکشن کومثالی قرار دیا ہے۔