شرپسندوں کی جانب سے رینجرز اور پولیس پر پیٹرول بموں سے حملہ کیا گیا۔فائل فوٹو
شرپسندوں کی جانب سے رینجرز اور پولیس پر پیٹرول بموں سے حملہ کیا گیا۔فائل فوٹو

’تحریک لبیک کے قیدیوں پر جیلوں میں انسانیت سوز تشدد ‘

لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں دائر ایک درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے جیلوں میں بند افراد پر ’انسانیت سوز‘ تشدد کیا جا رہا ہے۔

درخواست میں 23 نومبر 2018 سے زیر حراست تحریک لبیک کے قائدین و کارکنان کی حالت زار معلوم کرنے کے لئے کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں مذکورہ درخواست سمیت دو متفرق درخواست کی سماعت 8 جنوری کو ہوگی۔

درخواست میں کہا  گیا ہے کہ 23 نومبر سے حراست میں لئے گئے تحریک لبیک کے قائدین و کارکنان کو جیلوں میں آئینی،قانونی اور بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، زیر حراست افراد پر جیلوں میں انسانیت سوز تشدد کیا جارہا ہے، نوے سالہ بزرگ عالم دین مولانا محمد یوسف سلطانی انہیں وجوہات کی وجہ سے حافظ آباد جیل میں انتقال کر چکے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ تحریک لبیک کے سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری شدید علیل ہیں،انہیں طبی سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں جبکہ اس جماعت کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی پر بھی جیل میں مختلف طرح سے جسمانی و ذہنی تشدد کیا گیا اورعلامہ خادم حسین رضوی کی حالت تشویشناک ہو چکی ہے۔

اس حوالے سے ’امت‘ کے رابطہ کرنے پر سرکاری ذرائع نے کہا کہ پیر افضل قادری کو راولپنڈی کے اسپتال میں بہتری طبی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جبکہ علامہ خادم حسین رضوی کو بھی طبی سہولتیں دی گئی تھیں۔

چیئرمین ڈیفنس آف پاکستان حافظ احتشام احمد کی جانب  سے دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ عدالت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے آئینی،قانونی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے اپنے تمام آئینی اختیارات کو بلا تاخیر استعمال کرے،عدالت عالیہ کو چاہئیے کہ وہ فریقین کو زیر حراست افراد کو تمام آئینی،قانونی اور بنیادی حقوق کی فرایمی یقینی بنانے کے لئے سخت احکامات جاری کرے۔

درخواست گزار نے وفاقی سیکریٹری داخلہ،چیف سیکریٹری پنجاب،آئی جی پولیس اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا ہے۔

یاد رہے کہ تحریک لبیک کے سینکڑوں رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں 23 نومبر کو اس وقت شروع کی گئیں جب وہ 25 نومبر 2018 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس جلسے میں آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف احتجاج بھی متوقع تھا۔ کریک ڈائون کے باعث یہ جلسہ نہ ہوسکا۔