بیساکھی ہٹے گی تو پارلیمان میں ہمارے نمبر پورے ہوجائیں گے۔فائل فوٹو
بیساکھی ہٹے گی تو پارلیمان میں ہمارے نمبر پورے ہوجائیں گے۔فائل فوٹو

اضافی ٹیکس لگانا عوام کے مفاد میں نہیں۔شاہد خاقان عباسی

مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ اضافی ٹیکس لگانا اورافراط زر بڑھانا عوام یا ملک کے مفاد میں نہیں۔اخراجات کو پورا کرنے کیلیےیہ منی بجٹ میں بوجھ عوام پر ڈال رہے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسمعیل نے کہا ہے کہ ایل این جی نہ لاتے تو ملک میں توانائی کا بحران حل نہ ہوتا،میں ملک میں ایل این جی لانے کا ذمے دار ہوں جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ دوسرا مہینہ ہے ملک میں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ ہے اور معیشت نیچے جارہی ہے،ہم نے تعمیری بات کرنی ہے ،راستہ دکھانا ہے ،نعم البدل دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں جوبھی تبدیلی آئے گی سینیٹ کے اندر سے ہی آئے گی،اس حکومت میں نہ قابلیت ہے نہ اہلیت اور نہ محنت ہے ،این آر او کی بحث ختم کریں این آر او نہ کوئی مانگ سکتا ہے نہ دے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی آمدنی نہیں اورافراط زر سے حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے ہم چاہتے ہیں کہ معیشت بہتر ہو ملک کے حالات اچھے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ای سی ایل کے علاوہ بھی کابینہ کے پاس کرنے کو بہت کام ہوتے ہیں،ہم نے اپنی حکومت میں ای سی ایل پر پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم 5 سال میں2 فیصد گروتھ کو 5.8 فیصد پر لے گئے تھے ،اب ان اخراجات کو پورا کرنے کیلیےیہ منی بجٹ میں بوجھ عوام پر ڈال رہے ہیں

اس موقع پر مفاتح اسماعیل نے کہا کہ حکومت نوٹ چھاپنے پر مجبور ہو چکی ہے،ایک کروڑ نوکریاں دینے کیلیےآپ کو گروتھ ریٹ 8 سے 9 فیصد کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ خسارہ 2.8 فیصدتک بڑھ چکاجوآیندہ سہ ماہی میں مزیدبڑھےگا، اس خسارے سے ملک پر بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے،چھ ماہ میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ ہوچکا ہے ۔

انہوں نےکہا کہ ملک کا قرضہ 2240 ارب روپے بڑھ چکا ہے ،انھوں نے اسٹیٹ بینک سے 14سو ارب روپے قرض لیا،انھوں نے 45ارب ڈالر اسٹاک ایکسچینج میں نقصان کرایا ہے

انہوں نے کہا کہ حکومت اب تک آئی ایم ایف کا پروگرام  فائنل نہیں کرسکی ،حکومت فیصلہ کرے کہ انھوں نے کرنا کیا ہے،حکومت کے اخراجات میں کہیں کمی نہیں ہوئی یہ صرف شو آف کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو سوشل میڈیا کو چھوڑکر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔