کراچی میں سابق ایس ایس پی رائو انوار کے مبینہ احکامات پر قتل کیے گئے نقیب اللہ محسود کی برسی پر پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) نے اتوار کو ٹانک میں ایک جلسہ منعقد کیا تاہم اس جلسے میں جہاں نقیب اللہ پر بات ہوئی وہیں پہلی مرتبہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سی پیک کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
جلسے سے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور دیگر نے خطاب کیا۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں اس جلسے کی رپورٹنگ نہیں ہوئی تاہم افغانستان کے پشتو ذرائع ابلاغ نے اسے رپورٹ کیا ہے۔
پی ٹی ایم نے یہ جلسہ نقیب اللہ محسود کے نام پر کیا۔ ایک روز قبل یعنی 12 جنوری کو تحریک کے رہنمائوں نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی کارکنوں کو بتایا تھا کہ پاکستان اور بیرون ملک نقیب کو انصاف دلانے اور لاپتہ افراد کے معاملے پر ٹانک کے علاوہ بیرون ملک بھی جلسے کیے جائیں گے۔
ٹانک کے جلسے میں نقیب اللہ محسود پر بات ضرور ہوئی۔ رائو انوار کو سزا نہ ملنے کا ذکر بھی آیا اور منظور پشتین نے اعلان کیا کہ رائو انور کو سزا دلانے کیلئے 100 برس جدوجہد کرنا پڑی تو کریں گے۔
تاہم اس کے بعد رخ سی پیک کی طرف مڑ گیا۔ منظور پشتین نے کہا کہ سی پیک صرف پنجاب کے مفاد میں ہے اس کے نتیجے میں پشتون حقوق سے محروم ہوجائیں گے۔
پشتین کے اس دعوے کو یورپی فنڈنگ سے چلنے والے ریڈیو مشال اور دیگر پشتون ذرائع ابلاغ نے خصوصی اہمیت دی۔ ریڈیو مشال نے کہا کہ ’’پچھلے مطالبات دہرانے کے علاوہ پی ٹی ایم کے منظور پشتین نے ٹانک لانگ مارچ کو بتایا کہ پشتون علاقوں کے قدرتی وسائل اور سی پیک سے زیادہ تر پنجاب کو فائدہ ہو رہا ہے۔ پشتون مستقل غربت میں رہ رہے ہیں۔‘‘
منظور پشتین کے اس دعوے کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ برس مئی جون میں پی ٹی ایم پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ لسانی منافرت پھیلا کر سی پیک کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے مختلف سوشل میڈیا اکائونٹس سے ایک ویڈیو بھی پھیلی جس کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’ویڈیو لنک پر منظور پشتین کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ سی پیک پشتونوں کا نہیں بلکہ پنجابیوں کا منصوبہ ہے اس کو روکو اور اسکے خلاف محاذ تیار کرو۔‘‘
پی ٹی ایم کے حامی اس طرح کے الزامات کو مضحکہ خیز اور تحریک کے خلاف سازش قرار دیتے رہے۔ لیکن اب منظور پشتین نے بعین وہی الفاظ استعمال کیے جو مذکورہ ویڈیو کے ساتھ پھیلائے گئے تھے۔
دیگر پشتو ذرائع ابلاغ نے بھی منظور پشتین کی جانب سے سی پیک کے ذکر کو اہمیت دی اور کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہے کہ پشتین نے اس معاملے پر بات کی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی حکومت ریڈیو مشال اور وائس آف امریکہ دیوا پر پی ٹی ایم کی ترجمانی اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا الزام عائد کرتی ہے۔
جلسے کیلئے سرکاری منظور- مہم کی بھی اجازت
وائس آف امریکہ دیوا کے مطابق منظور پشتین نے جلسے کی اجازت دینے پر مقامی سرکاری انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا جبکہ پولیس نے جلسے کے لیے سیکورٹی فراہم کی۔
یہ جلسہ ایک میدان میں کیا گیا جس میں خاصے لوگ موجود تھے۔ اگرچہ میدان کا ایک بڑا حصہ خالی تھا۔
شرکا نے سیاہ اور سفید رنگ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ پاکستانی پرچم دیکھنے میں نہیں آیا۔
جلسے کے لیے پی ٹی ایم کو ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر اضلاع میں مہم چلانے کی آزادی بھی تھی۔ پی ٹی ایم کے کارکن ان اضلاع میں چندہ بھی جمع کرتے رہے۔ یہ مہم ایک ہفتے تک چلتی رہی۔ خود منظور پشتین نے بھی کئی کارنر میٹنگز کیں۔
جلسے میں کچھ لوگ لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود تھے جو اپنے پیاروں کی تلاش میں ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں ذرا بھی امید ہوتی ہے۔
نقیب اللہ کے والد کی عدم شرکت اور پروپیگنڈے کی جنگ
پی ٹی ایم کے جلسے میں نقیب اللہ محسود کے والد یا مقتول کے اہلخانہ میں سے کسی نے شرکت نہیں کی۔ نقیب اللہ محسود کے والد خان محمد کراچی میں گرینڈ جرگے کی جانب سے منعقدہ برسی کی تقریب میں شریک ہوئے۔ ان کے ساتھ نقیب اللہ محسود کی بیٹیاں نائلہ اور عالیہ بھی تھیں۔
پی ٹی ایم کے حامیوں نے جلسے کی حمایت میں ٹوئٹر پر #PashtunLongMarch2Tank کا ٹرینڈ چلایا جبکہ مخالفین نے #PTMfasadAtTank کے ہیش ٹیگ سے ہزاروں ٹوئیٹس کیں۔
پی ٹی ایم نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جلسے کی براہ راست کوریج روکنے کے لیے علاقے میں موبائل انٹرنیٹ بند کردیا گیا تھا۔