افغانستان میں 1994 میں طالبان کے سامنے آنے کے بعد اب تک 24 برس میں ان سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے بھارت نے اچانک ان کے ساتھ روابط قائم کرنے کی تیاری کرلی ہے اور اس سلسلے میں ایران نئی دہلی کی مدد کرنے کو تیار ہے۔
بھارتی حکومت نے اب تک مؤقف اپنا رکھا تھا کہ جب تک طالبان کابل حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے وہ ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھے گی۔ لیکن اب یہ مؤقف تبدیل ہو رہا ہے، حتیٰ کہ بھارتی دانشور اس معاملے امریکہ کو ناراض کرنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔
بھارت کی پالیسی میں تبدیلی کیوں آئی اور وہ افغان طالبان کے حوالے سے نیا لائحہ عمل کیوں اختیار کر رہا ہے اس کا جواب سابق بھارتی صدر حامد انصاری اور امریکہ کے لیے سابق بھارتی سفیر گھریکھان کے ایک مشترکہ مضمون سے ملتا ہے جو 14 جنوری کو بھارتی اخبار دی ہندو میں شائع ہوا۔ اس مضمون کی اشاعت سے پہلے ہی یہ خبر آچکی تھی کہ ایران نے افغان طالبان سے رابطوں میں بھارت کو مدد کی پیشکش کی ہے۔ لہذا اس مضمون کوبھارتی پالیسی میں تبدیلی کا پس منظر سمجھنے کیلئے پڑھا جاسکتا ہے۔
دونوں دانشوروں نے اس مضمون میں بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امریکہ کی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر افغان طالبان سے تعلقات قائم کرے کیونکہ ’’اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ آنے والے مہینوں اور برسوں وہ افغانستان کی سیاست میں ایک اہم کھلاڑی ہوں گے۔ وہ پہلے ہی افغانستان کے 50 فیصد علاقے پر کنٹرول رکھتے ہیں اور دن بہ دن مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘
حامد انصاری اور گھریکھان کا کہنا تھاکہ افغان طالبان روس، چین اور وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے علاوہ امریکہ سے بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کابل حکومت کے ساتھ طالبان کے بات کرنے سے انکار کا بھی یہ کہہ کر دفاع کیا کہ امریکی انخلا کے ساتھ طالبان کابل حکومت سے بات چیت پر بھی آمادہ ہوجائیں گے۔
مضمون میں بھارتی حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اس معاملے پر امریکی ناراضگی کی پرواہ کرنےکے بعد ’’اپنے مفادات دیکھے‘‘۔ انہوں نے کہاکہ بھارت طالبان کو اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکتا لہٰذا انہیں متنفر نہ کیا جائے، ایک شیعہ ملک ایران بھی کٹر سنی طالبان تحریک سے سرکاری سطح پر بات چیت کر رہا ہے۔
دونوں دانشوروں کا کہنا تھا کہ بھارتی اداروں کے لیے طالبان سے رابطہ مشکل نہیں ہوگا لیکن مشکل ہو بھی تو ایران کی مدد لی جاسکتی ہے۔
اس مضمون میں افغانستان کو ’’غیرجانبدار‘‘ رکھنے کے لیے ایک کثیر الملکی معاہدے کی تجویز دی گئی ہے جس میں دیگر ممالک کے علاوہ بالخصوص پاکستان کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور کہا گیا ہے اس معاہدے کی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے توثیق کرائی جائے۔
افغان طالبان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی حمایت محض ایک سابق صدر اور سابق سفیر نے ہی نہیں کی بلکہ معروف بھارتی صحافی اور دی ہندو کی سفارتی امور کی ایڈیٹر سوہاسنی حیدر نے اسے عقل مندی پر مبنی مشورہ قرار دیا۔ دیگر کئی صحافیوں اور دانشوروں نے بھی اس بات کو سراہا ہے۔
حامد انصاری اور گھریکھان نے یہاں تک کہا ہے کہ بھارت اس معاملے پر چین کے ساتھ مذاکرات کرے اور اس سے مل کر چلے۔
خطے کی تاریخ اور حالیہ پانچ برسوں کے حالات اور حامد انصاری کے مضمون کو سامنے رکھا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بھارت افغان طالبان سے تعلقات قائم کرنے پر کیوں آمادہ ہوا ہے۔
- چونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا قیام یقینی ہے، اس لیے بھارت طالبان سے تعلقات قائم کرکے کسی نہ کسی طرح وہاں اپنی موجودگی یقینی بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
- اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو طالبان کی افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان کسی نہ کسی اسٹریٹجک اتحاد کا خدشہ ہے جس کے پیش نظر غیرجانبداری کے معاہدے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ اس تجویز کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تنازعے میں افغانستان پاکستان کی حمایت نہیں کر سکے گا بلکہ ’’غیرجانبدار‘‘ رہنے پر مجبور ہوگا۔
- حامد انصاری نے پاکستان کو خوش کرنے کیلئے یہ بھی کہا ہے کہ ایسے معاہدے کی بنیاد 1988 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے دوطرفہ معاہدے کو بنایا جائے جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔
بھارت میں طالبان سے اچھے تعلقات کی باتیں ایسے موقع پر کی جارہی ہیں جب بی بی سی کے مطابق افغان طالبان کو اشرف غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کرنے کیلئے پاکستان نے طالبان کے وزیرمذہبی امور حافظ محب اللہ کو پشاور سے گرفتار کرلیا ہے اور طالبان سربراہ ہیبت اللہ نے طالبان کے دیگر رہنمائوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔