گلگت بلتستان کےداخلی راستوں پر اسکریننگ سائٹس بنائی جائیں گی۔فائل فوٹو
گلگت بلتستان کےداخلی راستوں پر اسکریننگ سائٹس بنائی جائیں گی۔فائل فوٹو

گلگت بلتستان کے حقوق کیلئے سپریم کورٹ نے راستہ نکال دیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک تاریخی فیصلے میں گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کے عوام کے مساوی حقوق دینے کیلئے راستہ نکال دیا ہے۔

یہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری مقدمہ بھی تھا۔

جمعرات کو جاری کیے گئے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے حکومت پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ’’پرپوزڈ آرڈر‘‘ جاری کرے جس کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دیئے جائیں گے۔

عدالت نے یہ پرپوزڈ آرڈر بھی خود تیار کر کے فیصلے کے ساتھ منسلک کیا ہے اور حکومت اس میں ترمیم نہیں کر سکے گی۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نانے کے ساتھ نہ صرف پرپوزڈ آرڈر منسلک کیا بلکہ ایک سمری بھی لگائی ہے جس کا مقصد عدالتی فیصلے کو سمجھنے میں مدد دینا ہے۔ اگرچہ یہ سمری فیصلے کا باضابطہ حصہ نہیں۔

عدالت عظمیٰ نے سمری میں کہا ہے کہ گلگت بلتسان پر عدالتی فیصلے سے کشمیر ایشو کی نوعیت تبدیل نہیں ہوگی۔  جبکہ کشمیر پر استصواب رائے کی صورت میں گلگت بلتستان کے عوام بھی اس میں حصہ لے سکیں گے۔ اس وقت تک ایک قانونی فریم ورک کے تحت خطے کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔

سمری کے مطابق فیصلے کیلئے الجہاد ٹرسٹ 1999 پر عدالتی حکم کو بھی سامنے رکھا گیا جس میں شمالی علاقہ جات کے عوام کو چھ ماہ کے اندر اندر بنیادی حقوق دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

عدالت کے تیار کردہ پرپوزڈ آرڈر کے شروع میں کہا گیا کہ ’’چونکہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینا چاہتی ہے اور چونکہ آئینی ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت اور وقت درکار ہے۔ تاہم عبوری اقدام کے طور پر حکومت (اس آرڈر کے ذریعے خطے کو) دیگر صوبوں کے مساوی بنیادی حقوق دینا چاہتی ہے ۔‘‘

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تجویز کردہ حکم (پرپوزڈ آرڈر)  وفاقی حکومت کی سفارش پر صدر پاکستان 14 روز کے اندر نافذ کریں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر نافذ کردہ حکم کو تبدیل یا نافذ پارلیمنٹ کے حکم سے کیا جاتا ہے اور اگر اس کو چیلنج کیا جائے تو آئین کی بنیادی روح کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

سمری کے مطابق فیصلے میں ترمیم چیلنج کیے جانے پر فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 124 کے برعکس کوئی حکم نافذ نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی آئین کی کوئی شق ختم یا تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہی معاملہ آرٹیکل 183(3) تحت زیر سماعت آیا۔

فیصلے کے مطابق گلگت بلتستان کی عدالتیں بشمول وہاں کی سپریم کورٹ گلگت بلتستان کی حدود سے باہر علاقوں سے متعلق مقدمات نہیں سن سکتیں، البتہ گلگت بلتستان کی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیے جاسکتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ہم نے ایک غیر معمولی کام کیا ہے اس ججمنٹ کی پریس سمری جاری کی ہے۔

فیصلہ دینے والے بنچ میں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس فیصل عرب، جسٹس جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اکبر شامل تھے۔

چیف جسٹس کے آخری ریمارکس

گلگت بلتستان موومنٹ کے سربراہ اکبر عباس 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ کے باہر گفتگو کر رہے ہیں
گلگت بلتستان موومنٹ کے سربراہ اکبر عباس 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ کے باہر گفتگو کر رہے ہیں

فیصلے کے بعد عدالت برخاست کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں سب کا شکر گزار ہوں یہ میرا آخری کیس تھا، 20 سال سے زائد میں نے اس اعلی عدلیہ میں گزارے، میں نے کوشش کی ہے کہ کہ قانون اور ضابطے کے اندر رہتے ہوئے فیصلے دوں۔

عدالتی کارروائی کے موقع پر گلت بلتستان موومنٹ کے سربراہ اکبر عباس اور دیگر کارکن بھی موجود تھے۔ فیصلے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔