مرضیہ ہاشمی ایران میں ایک مذہبی تقریب میں اظہار خیال کر رہی ہیں
مرضیہ ہاشمی ایران میں ایک مذہبی تقریب میں اظہار خیال کر رہی ہیں

امریکہ میں گرفتار خاتون ایرانی صحافی کے قبول اسلام کی کہانی

امریکہ میں زیر حراست خاتون ایرانی صحافی مرضیہ ہاشمی کا ایران کے اسلامی انقلاب سے گہرا تعلق ہے۔ ایرانی حکومت ان کی رہائی کے لیے پوری شدو مد سے کوششیں کر رہی ہے۔ وہ غیرملکی دنیا سے آنے والے ان محدود لوگوں میں شامل ہیں جن کا ایران کی اعلیٰ مذہبی قیادت سے قریبی تعلق رہا۔

1979 میں جب ایران میں شاہ کا تختہ الٹا گیا اور آیت اللہ خمینی کی روحانی قیادت میں اسلامی حکومت بنی تو مرضیہ ہاشمی ابھی میلنی فرینکلن تھیں۔ امریکہ کے سیاہ فام اکثریتی شہر نیو اورلینز میں 1959 میں پیدا ہونے والی میلنی فرینکلن کو افریقی امریکی شہریوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے میں کوئی تامل نہ تھا۔

تعلیمی دور میں جہاں میلنی فرینکلن سیاہ فام امریکیوں کے حق میں احتجاج کر رہی تھیں وہیں امریکی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ایرانی طلبہ شاہ کے خلاف مظاہروں میں مصروف تھے۔

20 سالہ میلنی کو ان طلبہ کے احتجاج میں دلچسپی پیدا ہوئی تو وہ ان سے ان کے کاز کے بارے میں پوچھنے لگیں۔ میلنی کو اپنے حقوق کے ساتھ سچائی بھی تلاش تھی۔ ایرانی طلبہ سے پوچھا گیا یہ سوال کہ تم لوگ شاہ کا تختہ کیوں الٹنا چاہتے ہو، میلنی کو آفاقی سچائی کی طرف بھی لے گیا۔ بعد میں ایک انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ تثلیثی عقیدے کی یہ بات انہیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ خدا تین حصوں فادر، سن اور ہولی گھوسٹ پر مشتمل ہے لیکن ایک ہے۔

ایران میں انقلاب آنے کے کچھ ہی عرصے بعد میلنی کے دل میں بھی انقلاب آگیا۔ وہ 1982 میں 22 برس کی عمر میں اسلام قبول کرکے مرضیہ ہوگئیں۔ ایک ایرانی نوجوان سے شادی کرکے ان کا نام مرضیہ ہاشمی ہوگیا۔ مرضیہ کا کہنا تھا کہ آیت اللہ خمینی کے کردار نے انہیں متاثر کیا۔

ایرانی نوجوان سے شادی کرنے کے نتیجے میں انہیں ایران کی شہریت بھی مل گئی۔ لیکن 2008 تک وہ امریکہ میں ہی مقیم تھیں اور بطور صحافی کام کرتی رہیں۔  2008 میں مرضیہ نے ایران میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ انہیں ایران کے انگریزی زبان کے پریس ٹی وی میں ملازمت مل گئی۔ جلد ہی مرضیہ اہم ٹی وی میزبانوں میں شمار ہونے لگیں۔

پریس ٹی وی بیرونی دنیا میں اپنا مؤقف پہنچانے کیلئے ایران کا اہم ترین آلہ ہے۔

ملازمت کی نوعیت کے علاوہ بھی مذہبی رحجانات کے سبب مرضیہ ہاشمی جلد ہی ایران کی اعلیٰ قیادت کے قریب ہوگئیں۔ انہوں نے ایران کے تین سابق صدور اکبر ہاشمی رفسنجانی، احمدی نژاد اور جلال طالبانی کے انٹرویوز کیے۔

مرضیہ ہاشمی اکثرمجالس اور دیگر مذہبی محافل میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ کٹر مذہبی رحجانات کے باوجود وہ بین المذاہب ہم آہنگی کی حامی تھیں۔

وہ اپنے بیمار بھائی اور دیگر عزیز واقارب سے ملنے کیلئے امریکہ گئی تھیں کہ 15 جنوری کو سینٹ لوئس میں بین الاقوامی ایئرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا۔ ایران کا کہنا ہے کہ انہیں واشنگٹن میں ایف بی آئی کے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے جہاں ان سے مجرموں جیسا سلوک ہورہا ہے، ان کا حجاب ان سے چھین لیا گیا ہے اور حلال کھانا میسر نہیں۔

مریضہ ہاشمی کی پریس ٹی وی کے اسٹوڈیو میں لی گئی تصویر
مریضہ ہاشمی کی پریس ٹی وی کے اسٹوڈیو میں لی گئی تصویر

ایران نے اعلیٰ سطح پر ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ وزیرخارجہ جواد ظریف نے مرضیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی حکومت نے مرضیہ کی حراست کی تصدیق نہیں کی۔ امریکی میڈیا کے مطابق سینٹ لوئس ایئرپورٹ کے ترجمان نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایف بی آئی سے رابطے کا مشورہ دیا۔

پریس ٹی وی کے مطابق گرفتاری کے 48گھنٹے بعد انہیں اپنے اہلخانہ سے رابطے کی اجازت دی گئی اور مرضیہ نے اپنی بیٹی کو فون کیا۔

پریس ٹی وی کی صحافی مریم کا کہنا ہے کہ  مرضیہ دو ہفتے سے امریکہ میں موجود تھیں۔ وہ لوزیانا سے کولوراڈو جانے والی تھیں جب انہیں حراست میں لیا گیا۔ مریم کے مطابق مرضیہ کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا۔

گرفتاری کا سبب

مرضیہ ہاشمی اسلام قبول کرنے کے بعد بھی سیاہ فام امریکیوں کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ اس دوران انہوں نے امریکی پالیسیوں پر بھی تنقید کی۔ مرضیہ کے بیٹے حسین ہاشمی نے امریکی ٹی وی سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ان کی والدہ سیاہ فاموں پر دستاویزی فلم بنانے امریکہ گئی تھیں۔ حسین ہاشمی امریکہ کے شہر ڈینور میں مقیم ہیں۔

کچھ لوگ ان کی گرفتاری کو ایران میں زیر حراست چار امریکیوں کے معاملے سے جوڑ رہے ہیں جنہیں رہا کرانے کیلئے امریکہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ ان میں امریکی بحریہ کا ایک سابق اہلکار اور ایک ایف بی آئی ایجنٹ شامل ہے۔

خود مرضیہ نے اہلخانہ سے فون پر گفتگو کے دوران کہا کہ انہیں اپنی گرفتاری کا سبب معلوم نہیں۔

مرضیہ کے امریکہ میں موجود بھائی ملٹن فرینکلن کا کہنا ہے کہ ان کی بہن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے جبکہ ان کے شوہر انتقال کر چکے ہیں۔