افغان طالبان نے پاکستان میں آکر امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعہ کی شب ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد میں طالبان کے نمائندوں اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد میں مذاکرات کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
اس سے پہلے افغانستان کے لیے امریکی صدر کے نمائندے زلمے خلیل زاد اور دیگر امریکی حکام کے اسلام آباد میں وزیرخارجہ، آرمی چیف اور دفترخارجہ حکام سے دو روزہ مذاکرات کے بعد بتایا گیا تھا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور اسلام آباد میں ہوگا جس کے لیے 10 سے زائد طالبان نمائندے پاکستان آئیں گے۔
اسلام آباد میں طالبان امریکہ مذاکرات کی ممکنہ ناکامی کا الزام پاکستان پر آنے کے خدشے کے باوجود پاکستانی حکام کی جانب سے بات چیت کی میزبانی کی یقین دہانی کردی تھی لیکن افغان ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ طالبان نے اسلام آباد میں مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔
دبائو کیلئے گرفتاریاں بھی ناکام
افغان ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ طالبان پر دباؤ کے لیے ان کے بعض رہنمائوں کو بھی گرفتار کیا گیا لیکن طالبان نے پاکستان کا مطالبہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ افغانستان کے پشتو ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اب طالبان رہنما پاکستان سے چلے گئے ہیں اور انہوں نے اپنے فون نمبرز بھی بند اور تمام رابطے منقطع کردیئے ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان کے بعض سیاسی رہنمائوں کی پاکستان میں موجودگی کا اکثر دعویٰ کیا جاتا ہے اگرچہ پاکستانی حکومت نے کبھی اس کی تصدیق نہیں کی۔
بی بی سی کے مطابق افغان طالبان پر دبائو ڈالنے کے لیے پاکستان نے طالبان کے وزیرمذہبی امور حافظ محب اللہ کو گرفتار کیا تھا لیکن پیر کے روز انہیں ڈرامائی انداز میں رہا کردیا گیا۔
افغان طالبان کے ترجمان نے ٹؤئٹرپر جاری مختصر بیان میں کہا کہ اسلام آباد میں امارات اسلامی (طالبان) کے نمائندوں اور امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد کے درمیان مذاکرات کی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں۔
زلمے خلیل زاد چین اور افغانستان کے دورے کے بعد مقررہ شیڈول سے دو روز کی تاخیر کے بعد جمعرات کو پاکستان پہنچے تھے۔ انہوں نے پہلے دفترخارجہ میں سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور دیگر حکام سے مذاکرات کیے جبکہ شام میں امریکی وفد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کےے ساتھ موجود فوجی حکام سے ملا۔
پاکستان میں زلمے خلیل زاد کے فوجی قیادت-دفتر خارجہ حکام سے مذاکرات
امریکی وفد میں امریکی صدر کی نائب معاون لیزا کرٹس اور افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر اسکاٹ ملر بھی شامل ہیں۔
جمعہ کی صبح اس وفد نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کے بعد سفارتی ذرائع نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ نے درخواست کی تھی کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے آئندہ دور کی میزبانی پاکستان کرے اور پاکستان نے یہ درخواست قبول کرلی ہے۔
طالبان کے انکار سے پہلے سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان اور امریکہ کے مذاکرات آئندہ ہفتے ہو سکتے ہیں اور یہ کہ اس کے لیے 10 سے زائد طالبان نمائندوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی جائے گی۔ تاہم تاریخوں کا تعین کیا جا رہا ہے۔
سرکاری طور پر اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ لیکن اسلام آباد مذاکرات کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد ہی طالبان کے انکار کی خبر آگئی۔
اس سے پہلے طالبان اور امریکہ میں ابوظہبی میں مذاکرات ہوئے تھے تاہم سعودی عرب کے شہر جدہ میں بات چیت سے طالبان نے انکار کردیا تھا جس کا سب سعودی عرب کی جانب سے طالبان پر ڈالا گیا دبائو تھا۔ سعودی عرب اور امارات نے طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اشرف غنی حکومت کے ساتھ بھی بات چیت کریں لیکن طالبان نے اس سے انکار کرتے ہوئے قطر میں مذاکرات کا مطالبہ کیا۔ رواں ماہ کے شروع میں یہ مذاکرات آخر وقت پر منسوخ کردیئے گئے تھے۔
امریکی ریڈیو وائس آف امریکہ نے جمعرات کو اپنی ایک رپورٹ میں اسلام آباد میں مذاکرات کی میزبانی کا واضح ذکر کیے بغیر بتایا تھا کہ پاکستان امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وائس آف امریکہ کے مطابق پاکستان کے سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کا انتظام کرا دیں گے لیکن مذاکرات کی ’’کامیابی یا ناکامی‘‘ کی مکمل ذمہ داری بات چیت میں شریک فریقین پر ہوگی۔
پاکستان کی جانب سے ناکامی کا الزام اس کے سر آنے کا یہ خدشہ بے سبب نہیں۔ 2015 میں افغانستان میں امن کیلئے پاکستان نے مذاکرات کی میزبانی کی تھی جنہیں ’’مری پروسس‘‘ کا نام دیا گیا تھا لیکن بات چیت شروع ہونے سے ایک روز قبل ہی ملاعمر کے انتقال کی خبر لیک کردی گئی اور یہ مذاکرات سبوتاژ ہوگئے۔ اس وقت بات چیت کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا دیا گیا تھا۔
جمعہ کو پاکستانی ذرائع کے حوالے سے بعض نجی ٹی وی چینلز نے یہ خبر بھی دی کہ اسلام آباد کے ممکنہ مذاکرات میں افغان طالبان نے پاکستان کی موجودگی کے بغیر شرکت سے انکار کردیا ہے۔ جبکہ قطر اور سعودی عرب بھی اس بات چیت میں شریک ہوں گے۔ لیکن اس خبر کی آزاد ذائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ اگر ایسا ہوتا تو مذاکرات میں امریکہ اور طالبان کے علاوہ سعودی عرب اور قطر بھی شامل ہوجاتے۔ اس کے علاوہ زلمے خلیل زاد مسلسل طالبان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کریں۔ پاکستان اس مطالبے کی حمایت کر چکا ہے۔ اگر اشرف غنی حکومت بھی شریک ہوجاتی تو فریقین کی تعداد 6 تک پہنچ جانی تھیں۔
تاہم نئی صورت حال سے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کسی صورت اشرف غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات کو تیار ہیں۔ افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان گذشتہ دنوں زلمے خلیل زاد کے کردار پر بھی شکوک و شبہات ظاہر کر چکے ہیں۔
دوسری طرف افغانستان میں لڑائی میں پہلے ہی شدت دیکھی جا رہی ہے۔ پیر کے روز طالبان نے کابل میں غیرملکیوں کے ایک سیکورٹی کمپائونڈ پر ٹرک بم حملہ کیا جبکہ بدھ کو انہوں نے افغان فوج کے کانوائے کو نشانہ بناتے ہوئے 40 گاڑیاں تباہ کردیں۔
افغان طالبان نے کابل دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی- پاکستان میں اہم رہنما گرفتار
طالبان حملے میں افغان فوجی قافلے کی 40گاڑیاں تباہ
افغانستان میں امن سب کی ذمہ داری-پاکستان
کابل اور واشنگٹن برسوں تک طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور اب جب طالبان مذاکرات کی میز پرآگئے ہیں تو اشرف غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرانے کی فرمائش کی جا رہی ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی پاکستان کی سب سے بڑی مشکل ہے۔
جمعہ کو جب امریکی نمائندہ خصوصی زلمےخلیل زاد نے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی سے ملاقات کے دوران امریکہ اور طالبان مذاکرات میں سہولت کاری پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
شاہ محمودقریشی نے کہا خطے میں امن کے لئے پاکستان اپنی کاوشیں جاری رکھے گا۔ تاہم انہون نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغانستان میں قیام امن کےلیے مفاہمتی عمل مشترکہ ذمہ داری ہے۔
ملاقات میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ،دفاع اینڈنیشنل سیکیورٹی کونسل کےنمائندے شریک تھے۔ افغان وفد نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی۔
ملاقاتوں میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ افغان امن کےحوالے سے پاکستان کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بعد ازاں جمعہ کی شام ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے کہاکہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ انہون نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ افغانستان میں امن و مفاہمت کے لیے پاکستان جیسے علاقائی ممالک کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اور شاہ محمود قریشی نے انہیں پاکستان کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ زلمے خلیل زاد نے کہاکہ ’مجھے ٹھوس پیشرفت کی امید ہے۔‘