سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر نے کہا ہے کہ آئین کی وفاقیت کوبرقرار رکھنے کیلئے عدالت عظمیٰ کا زور صوبائی خود مختاری کے تحفظ پرہونا چاہیے۔
انہوں نے یہ بات جناح اسپتال کا کنٹرول صوبہ سندھ سے واپس وفاقی حکومت کو منتقل کرنے سے متعلق سپری کورٹ کے ایک فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہی۔
عدالت عظمیٰ نے جناح اسپتال کا کنٹرول واپس وفاق کو دینے کے حق میں زبانی فیصلہ 16 جنوری کو سنایا تھا جبکہ تحریری فیصلہ 17 جنوری جمعرات کو جاری کیا گیا جس میں یہ تین صفحے کا نوٹ موجود ہے۔
فیصل سنانے والا 5 رکنی بینچ (اب ریٹائرڈ) چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر ، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تھا۔
جسٹس مقبول باقر 2013 سے 2015 تک سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ انہوں نے فیصلے میں تین صفحے کااختلافی نوٹ لکھا جس کے آغاز میں انہوں نے کہاکہ کوشش کے باوجود وہ فیصلے سے اتفاق نہیں کرسکے۔
جسٹس باقر کا کہنا تھا کہ اسپتال ہمیشہ سے ایک صوبائی معاملہ رہے ہیں، 18 ویں ترمیم کے بعد وفاقی قانون سازی کی شق 37 میں جہاں وفاقی اثاثوں کی بات کی گئی وہاں یہ بھی لکھا گیا یہ اثاثے ’’وفاقی مقاصد‘‘ کیلئے ہیں نہ کہ صوبائی مقاصد کے لیے جبکہ سرکاری اسپتال صرف وفاقی مقاصد کے لیے نہیں ہوتے۔
جسٹس باقر نے لکھا کہ ’’آئین کا آرٹیکل 142 (c) وفاقی حکومت/قانون ساز ادارے کی حدود واضح طور پر محدود کرتا ہے جس کا احترام کرنا چاہیے۔ ہمارے آئین کی وفاقی نوعیت برقرار اور محفوظ رکھنے کیلئے ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ آئینی شقوں کی تشریح اس انداز میں کی جانی چاہیئے کہ صوبائی خود مختاری برقرار رہ سکے نہ کہ یہ کمزور ہو جائے۔‘‘
فیصلوں میں اختلافی نوٹ لکھنا عدالتی کارروائی کا ایک حصہ اور معمول ہے تاہم حالیہ دنوں میں ایک جج جسٹس منصور علی شاہ کا اختلاف مشہور ہوا ہے جو انہوں ںے جسٹس ثاقب نثار نے انسانی حقوق کے مقدمے میں جسٹس فائز عیسیٰ کو بینچ سے نکالنے پر کیا تھا۔
چیف جسٹس کی جانب سے جسٹس فائز عیسیٰ کو بینچ سے نکالنے کیخلاف ساتھی جج کافیصلہ