ساہیوال میں مارے گئے ذیشان کی ایک تصویر۔ مقتول باریش اور مذہبی رحجانات رکھتا تھا
ساہیوال میں مارے گئے ذیشان کی ایک تصویر۔ مقتول باریش اور مذہبی رحجانات رکھتا تھا

تحریک انصاف گواہی کے باوجود ذیشان کو دہشتگرد بنانے کی کوششیں

ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی فائرنگ سے خلیل، ان کی اہلیہ اور بچی کے ساتھ مارے گئے کار ڈرائیور ذیشان کے حق میں تحریک انصاف کےا ندر سے گواہی آگئی ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں تھا۔

لیکن اس گواہی کے باوجود جمعیت اہلحدیث نے خدشہ ظاہر کیا ہےکہ ذیشان کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں جاری ہیں۔

امت تازہ ترین نے دو روز قبل ہی خبر دی تھی کہ مقتول ذیشان مرکزی جمعیت اہلحدیث کا کارکن تھا۔

دہشت گرد قرار دیا گیا ذیشان اہلحدیث کارکن نکلا

ذیشان کی والدہ نے پیر کو ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس اور ان کی جٹھانی روبینہ ان کے خاندان کو جانتی ہیں اور یہ کہ ذیشان کو تعلیم بھی روبینہ نے دلائی تھی۔

تحریک انصاف کی رہنماعندلیب عباس
تحریک انصاف کی رہنماعندلیب عباس

تحریک انصاف کی رہنما عندلیب عباس نے اب علی اعلان کہا ہے کہ وہ ذیشان اور اس کی والدہ کو عرصے سے جانتی ہیں، وہ اچھے اور محنتی لوگ ہیں۔

عندلیب عباس کا کہنا تھا کہ ان کی ذیشان کی والدہ سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے معمر خاتون کو یقین دہانی کرائی کہ انصاف ہوگا اور مجرموں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

تحریک انصاف کی رہنما نے کہاکہ ذیشان کے خاندان کا نقصان بہت بڑا ہے، وہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے سے پہلے ہی ذیشان کے خلاف تمام الزامات کی مذمت کرتی ہیں۔

اس سے پہلے نجی ٹی وی کے میزبان وسیم بادامی کے پروگرام میں عندلیب عباس نے کہاکہ ’’میں ذیشان کی والدہ کو جانتی ہوں۔۔۔ میں شرمندہ ہوں ۔۔۔ میں ذاتی طور پر اور اپنی پارٹی کی جانب سے ان سے معافی مانگتی ہوں۔‘‘

اپنی پی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر قانون پنجاب راجا بشارت کی جانب سے ذیشان کو دہشتگرد قرار دینے کے بیان کی بھی انہوں نے مذمت کی۔

انہوں نے کہاکہ میں ذیشان کے خاندان کو انصاف دلائوں گی۔

عندلیب عباس کے اس جرات مندانہ انداز پر صحافی حامد میر سمیت درجنوں لوگوں نے سوشل میڈیا پر انہیں سراہا ہے۔ مقصود اشتیاق نے ٹوئٹر پر لکھا، ’’لاشوں میں سے ایک زندہ کا برامد ہونا خوش آئیند ہے۔ سلام ہے آپ کو۔‘‘

لیکن دوسری جانب تحریک انصاف کے حامیوں کی خاصی تعداد نے اس واقعے کے لیے کسی بھی انداز میں تحریک انصاف کو ذمہ دار ٹھہرانے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ کچھ نے عندلیب عباس کو جھوٹی قرار دیا۔

ایک ٹوئٹر صارف عدنان نے کہاکہ اب عندلیب عباس کو پارٹی سے نکال دیا جائے گا، عمران خان عام طور پر ایسے ہی کرتے ہیں۔

ذیشان کے مذہبی رحجانات کا سبب

شوہر سے علیحدگی کے بعد ذیشان کی والدہ حمیدہ بی بی طویل عرصے تک لوگوں کے گھروں پر کام کرتی رہیں اور اسی محنت سے انہوں نے پال پوس کر ذیشان اور اس کے چھوٹے بھائی احتشام کو بڑا کیا تھا۔ ذیشان کی شادی کچھ عرصہ قبل ہی والدہ کے رشتہ داروں میں ہوئی تھی۔

ذیشان کی وہ تصویر جو سوشل میڈیا پر وائر ہوگئی۔ اس میں قتل کے بعد ذیشان کاایک ہاتھ اسٹیرنگ پر ہے۔ اس نے سیٹ بیلٹ لگا رکھی ہے۔ گولیاں لگنے کے بعد اس کا سر خلیل کی گود میں گرا
ذیشان کی وہ تصویر جو سوشل میڈیا پر وائر ہوگئی۔ اس میں قتل کے بعد ذیشان کاایک ہاتھ اسٹیرنگ پر ہے۔ اس نے سیٹ بیلٹ لگا رکھی ہے۔ گولیاں لگنے کے بعد اس کا سر خلیل کی گود میں گرا

بیٹے کے قتل کے بعد وہ بار بار یہی کہہ رہی ہے کہ ذیشان سے دہشت گردی کا الزام ہٹا لیا جائے ورنہ لوگ اس کی بیوہ اور بچی  پر انگلیاں اٹھائیں گے۔

ذیشان کی والدہ کے بعد اس کی بیوہ زرینہ نے بھی ٹی وی چینلز کو انٹرویو کے دوران اپیل کی ہے کہ اس کے شوہر پر دہشت گردی کا الزام نہ لگایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ’شوہر تو چھین لیا، اب دہشت گردی کا الزام نہ لگائو۔‘

ذیشان مذہبی رحجانات رکھتا تھا، باریش تھا اور اسی وجہ سے علاقے کے لوگ اسے مولوی کہتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سی ٹی ڈی کے اپنے بیانات میں ذیشان کو دہشت گرد قرار دے کر ہلاکتوں کا ملبہ اس پر ڈالنے کی کوشش کی۔

تاہم ذیشان کے مذہبی رحجانات  جمعیت الحدیث سے وابستگی یا کسی دوسری سیاسی وجہ سے نہیں تھے۔ ذیشان کی والدہ نے بتایا کہ انہوں نے خود ذیشان کی تربیت ایسی کی تھی، وہ اس پر نماز کی ادائیگی کیلئے سختی کرتی تھیں۔

انہوں نے بتایاکہ ان کے گھر میں اگر کوئی بچہ نماز ادا نہ کرے تو اسے کھانا نہیں دیا جاتا، خود ذیشان اپنی 7 برس کی بچی کو تین مرتبہ قرآن پاک ناظرہ پڑھا چکا تھا۔

ٹی وی چینلز سے گفتگو میں زرینہ نے اپنا چہرہ مکمل طور پر ڈھانپ رکھا تھا۔

دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں جاری

جمعیت الحدیث کے رہنما ہشام الہیٰ ظہیر کا کہنا ہے کہ ذیشان جمعیت اہلحدیث یوتھ فورس کا کارکن تھا۔ اسے صرف باریش ہونے کی بنا پر دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔
ذیشان کے قتل کے بعد الحدیث کے رہنما اسے کے گھر پہنچے۔ جبکہ ذیشان کی نماز جنازہ بھی کہا کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان لاہور کے امیر رانا نصراﷲ نے پڑھائی تھی۔

علامہ ہشام الہیٰ ظہیر منگل کو ایک مختصر بیان میں خدشہ ظاہر کیا کہ حکومتی ادارے ذیشان پر دہشت گردی کے الزام واپس لینے کیلئے تیار نہیں اور کچھ عرصہ بعد یہ الزام پختہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ’’کہانی میں نیا موڑ، اہلکاروں کو بے گناہ قرار دینے اور ذیشان کو دہشت گرد بنانے کے لیے تیس دن درکار ہیں۔ ابھی عوام میں غصہ ہے۔‘‘

ہشام الٰہی ظہیر کے اس بیان سے چند گھنٹے پہلے ایک سینئر صحافی اور نجی ٹی وی چینل کے تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کا یہ بیان مختلف ویب سائیٹ نے شائع کیا کہ انہیں ایک گلگت بلتستان فورس کے ’’ایک ایسے بندے نے گواہی دی ہے جو غلط بیانی نہیں کرتا‘‘ کہ ذیشان سو فیصد دہشت گردی میں ملوث ہے۔

چوہدری غلام حسین پبلک نیوز ٹی وی پر تجزیہ کاری کرتے ہیں۔

’کیا گاڑی قتل کا سبب بنی‘

سانحہ ساہیوال پر جے آئی ٹی کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد ذرائع کے حوالے ایک بات یہ سامنے آئی کہ مقتولین جس گاڑی میں سوار تھے وہ کرائے کی تھی اور چند روز قبل دہشت گردوں نے استعمال کی تھی۔

اس سے قبل پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت نے کہا تھا کہ مذکورہ گاڑی کی کئی دن سے نگرانی جاری تھی اور وہ دہشت گردوں کی ایک اور گاڑی کے ساتھ چل رہی تھی۔

اس نئی کہانی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید دہشت گردوں کے زیراستعمال گاڑی ذیشان کی جانب سے کرائے پر لینے کی وجہ سے سانحہ ساہیوال پیش آیا۔

تاہم ذیشان کے بھائی احتشام اور والدہ حمیدہ بی بی دونوں کا کہنا ہے کہ گاڑی ذیشان کی اپنی تھی۔ احتشام نے صحافیوں کو بتایا کہ گاڑی 8 ماہ سے ذیشان کے پاس تھی۔

سیاسی رہنماؤں کی آمد

ذیشان کے گھر میں مختلف جماعتوں کے رہنما تعزیت کے لیے آرہے ہیں۔ پہلے ن لیگ کے حمزہ شہباز شریف پہنچے۔ منگل کو جمیعت علمائے اسلام(ف) کے مولانا غفور حیدری پہنچے۔

مونالا غفور حیدری نے بتایا کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمان کا پیغام ذیشان کے اہلخانہ کو پہنچایا جائے۔

سیاسی رہنمائوں نے متاثرہ خاندان کو انصاف کے حصول میں ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔