لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی شہ پر ہونے والی ایک فوجی بغاوت ناکام ہوگئی ہے۔
وینزویل کے صدر نکولس مادورو کے خلاف فوجی بغاوت کے حق میں امریکہ کی جانب سے کچھ عرصے سے بیانات آرہے تھے۔ امریکہ وینزویلا کی اپوزیشن کی بھی طویل عرصے سے مدد کر رہا ہے۔
وینزویلا میں امریکہ کی طرح صدارتی نظام ہے۔ یعنی حکومت اور قانون ساز ایوان ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ حکومت صدر مادورو کی ہے جبکہ قومی اسمبلی پر اپوزیشن کا کنٹرول ہے۔
اختیارات کی جنگ میں سپریم کورٹ کے ججز صدر ماردورو کی حکومت کے حامی ہیں اور انہیں نے اپنے فیصلوں سے قومی اسمبلی کے اختیارات بہت کم کر رہے ہیں۔
اس صورتحال میں اپوزیشن نے اعلان کیا تھا کہ جو فوجی حکومت کے خلاف بغاوت کریں گے انہیں عام معافی دی جائے گی۔
اپوزیشن نے گذشتہ ہفتہ اسمبلی میں صدر ماردورو کو ’’غاصب‘‘ قرار دیا تھا۔
دارالحکومت کراکس میں فوجیوں کے ایک گروپ نے پیر کو نیشنل گارڈز کے کمانڈ سینٹر پر دھاوا بول دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی جس میں عوام سے کہا گیا کہ وہ نیشنل گارڈز کے ان فوجیوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئیں۔
کمانڈ سینٹر میں گھسنے سے پہلے ان فوجیوں نے ایک چوکی پر بھی قبضہ کیا تھا جہاں پر تعینات 4 فوجی انہوں نے قیدی بنا لیے تھے اور ہتھیار قبضے میں لینے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اس کے کچھ ہی دیر بعد وینزویلا کے وزیر دفاع نے بتایا کہ بغاوت کرنے والے فوجیوں کی تعداد صرف 27 تھی اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
صدر مادورو کے دست راست کابیلو نے بتایا کہ گرفتار فوجیوں سے لوٹے گئے ہھتیار بھی برآمد کرلیے گئے ہیں جبکہ وہ مفید معلومات فراہم کر رہے ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں کامیابی کا یقین دلایا گیا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ انہیں فریب دیا گیا۔
لیکن ایسا نہیں کہ فوجیوں کی اپیل پر کوئی بھی نہیں آیا۔ کمانڈ سینٹر کے باہر کچھ لوگ جمع ہوئے۔ تاہم فوج اور پولیس کے دستے پہلے ہی اندر موجود باغیوں کو گھیرے میں لے چکے تھے۔
مظاہرین کو آنسو گیس کی شیلنگ سے بھگا دیا گیا۔
صدر مادورو مئی میں متنازع صدارتی انتخابات میں منتخب ہوئے۔ اپوزیشن نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جبکہ امریکہ اور یورپ نے الیکشن فراڈ قرار دیئے تھے۔