وفاقی حکومت کی جانب سے ایک پاکستانی یہودی فیشل بن خالد کو پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے کی اجازت دیئے جانے کی خبر نے چیئرمین سینیٹ سمیت لاکھوں نہیں تو سینکڑوں پاکستانیوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔
اس معاملے پر سوالات اٹھنے کے بعد جمعہ کو فیشل بن خالد نے اپیل کی ہے کہ انہیں اسرائیل جانے دیا جائے۔
پاکستان کے واحد اعلانیہ یہودی کہے جانے والے فیشل نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ انہیں پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ان کے اس اعلان کے بعد جو لوگ حالات حاضرہ سے ذرا کم باخبر رہتے ہیں وہ تو اس بات پر حیران ہوئے کہ یہ پاکستانی یہودی ہے کون اور جو ملکی اور عالمی امور سے بخوبی واقف ہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر کوئی اسرائیل کیسے جا سکتا ہے کیونکہ ہر پاکستانی پاسپورٹ پر انگریزی اور اردو میں صاف صاف لکھا ہوتا ہے کہ ’’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔‘‘
لہٰذا سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے کی اجازت دی بھی گئی ہے تو اس کی عملی صورت کیا ہوگی، کیا اسے کوئی الگ پاسپورٹ دیا جائے گا جس پر ’’سوائے اسرائیل‘‘ کے الفاظ نہیں ہوں گے یا علیحدہ کاغذ پر اجازت دی جائے گی۔
یہ پھر یہ کہ کیا پاکستان کے تمام شہریوں کے پاسپورٹس سے ’’سوائے اسرائیل‘‘ والا جملہ حذف کردیا جائے اور اگر ایسا ہو تو کیا اس کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا تو نہیں ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام سوال جمعرات سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ سیکریٹریٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ دفتر خارجہ سے اس حوالے سے جواب طلب کریں۔ اس سے پہلے سینیٹ میں میاں رضا ربانی نے معاملہ اٹھایا کہ ایک پاکستانی یہودی کو پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
سینیٹ سکریٹریٹ کا کیا جواب آتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے لیکن فیشل بن خالد کی کہانی انتہائی دلچسپ ہے۔
اس کہانی کا آغاز 5 برس پہلے ہوا۔
فیشل بن خالد نے بدھ کو ایک ٹوئیٹ کی جس میں وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’پیارے عمران خان 2 جنوری کو وزارت خارجہ نے مجھے کال کی اور بتایا کہ میں پاکستانی پاپسپورٹ پر یروشلم اسرائیل کا دورہ کر سکتا ہوں۔ میں اسرائیلی سفارتخانے کو ویزے کی درخواست دے رہا ہوں۔ ‘‘
فیشل نے ٹوئیٹ میں دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کو ٹیگ کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے علاوہ انہوں ںے فواد چوہدری، بلاول بھٹو زرداری اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی ٹیگ کیا۔ فیشل نے ٹوئیٹ کے ساتھ یہودی تہوار ’’پاس اوور‘‘ کے روایتی کھانے کی تصویر بھی شیئر کی۔
مبارک بادیں اور سوالات
اس ٹوئیٹ کے جواب میں متعدد پاکستانیوں نے فیشل کو مبارک باد دی کہ وہ اپنے مقدس مذہبی مقامات پر جا سکیں گے۔ کئی لوگوں نے انہیں کہا کہ وہ اسرائیل جا کر اپنے جاننے والوں کو ان کی طرف سے ’’شالوم‘‘ پہنچائیں، کچھ نے انہیں دیوار گریہ کے قریب پاکستانی پرچم لہرانے کا کہا۔
اسی دوران معروف صحافی عمر چیمہ کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ فیشل بن خالد نے اسرائیل جانے کیلئے اجازت کی درخواست 28 اکتوبر کو دی تھی جب اسرائیل سے ایک طیارہ پاکستان آنے کی خبروں کو تین روز ہوئے تھے۔ یہ درخواست پس منظر جاننے کیلئے سیکریٹری داخلہ سندھ کو بھیجی گئی کیونکہ فیشل کراچی کے رہائشی ہیں۔
عمر چیمہ کا دعویٰ ہے کہ جب اجازت دی گئی تو فیشل کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ اس اجازت کی تشہیر بھی کر سکتے ہیں۔
عمر چیمہ کے رابطے پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں جبکہ فیشل نے بھی کچھ کہنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ تنازعہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
جمعرات کو دفترخارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل سے صحافیوں نے اس حوالے سے کئی سوالات کیے لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اسرائیل کے حوالے سے پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔
اسلام آباد میں نمائندہ امت محمد فیضان کے مطابق فیشل کو اگر اجازت دی گئی ہے تو وزارت داخلہ کی طرف سے دی گئی ہوگی کیونکہ پاسپورٹ اجرا سمیت امیگریشن کے معاملات وزارت داخلہ کے تحت آتے ہیں تاہم فی الحال تفصیلات نہیں بتائی جا رہیں۔
ایک پاکستانی اپنے سبز پاسپورٹ پر اسرائیل کیسے جائے گا اس کی تفصیلات پر فی الحال سرکاری حکام بات کرنے کو تیار نہیں لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیشل بن خالد نے جو 2017 سے پہلے فیصل خالد تھے خود کو یہودی کے طور پر کیسے منوایا اور وہ بھی حکومت پاکستان کی دستاویزات میں۔
فیصل سے فیشل تک
2012 میں ایک پاکستانی نوجوان فیصل بن خالد سعودی عرب پہنچا۔ جدہ میں اس کے بڑے بھائی اقبال جاوید مقیم تھے۔ ان کے اس دورے پر دونوں بھائیوں کی کرسیوں پرآمنے سامنے بیٹھے ایک تصویر بنی جو مستقبل میں کافی مشہور ہونی تھی۔
جدہ کے دورے کے کچھ ہی عرصے بعد فیصل نے اپنے لیے یہودی نام فیشل اختیار کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ وہ حقیقت میں یہودی ہیں۔ 2013 میں انہون ںے ٹوئٹر پر jew_pakistani@ کے ہینڈل سے اکائونٹ بنایا۔ 2014 میں فیشل نےاسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کے والد مسلمان اور والدہ یہودی تھیں۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا کہ فیصل پر ارتداد کا الزام لگ سکتا ہے تاہم فیصل یا فیشل کا مؤقف تھا کہ وہ کبھی مسلمان تھے ہی نہیں بلکہ پاکستان میں موجود دیگر یہودیوں کی طرح انہوں نے اپنی مذہبی شناخت چھپا رکھی تھی۔ اس خبر کے آخر میں اسرائیلی اخبار نے لکھا کہ ایک نہ ایک دن فیشل اسرائیل آئے گا لیکن اس سے پہلے اسے پاکستانی پاسپورٹ پر موجود عبارت کی رکاوٹ کا سامنا ہوگا جو کہتی ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے لیے کارآمد نہیں۔
1987 میں کراچی میں پیدا ہونے والے فیشل کا نام اس کے والدین نے سرکاری دستاویزات میں فیصل درج کرایا تھا اور مذہب اسلام۔ فیصل یا فیشل نے بعد میں ایک اور اسرائیلی جریدے وائے نیٹ نیوز کو اپنی جو کہانی سنائی اس کے مطابق اس کے والد انتہائی سیکولر مسلمان تھے جب کہ والدہ یہودی تھیں۔ والدہ کا خاندان پاکستان بننے سے پہلے ایران سے کراچی آیا تھا اور پاکستان بننے بالخصوص عرب اسرائیل جنگ کے بعد کراچی کے بیشتر یہودی ملک چھوڑ گئے جبکہ جو رہ گئے وہ اپنی شناخت چھپانے لگے۔ ان کے والدین کی شادی بھی اسلامی طریقے سے ہوئی، اگرچہ ان کے دیگر چار بھائی مسلمان ہیں تاہم وہ بچپن سے ہی یہودیت کی طرف مائل تھے۔
فیشل کی سنائی گئی اس کہانی کے مطابق ان کی والدہ اس وقت گزر گئیں جب وہ 10 برس کے تھے تاہم انہیں یاد ہے کہ والدہ کیسے یہودی رسومات انجام دیتی تھیں۔ اس کے بعد والد اپنے سب بچوں کو سعودی عرب لے گئے لیکن تین برس بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ فیشل کے نانا نانی اپنی بیٹی کی شادی سے پہلے ہی دنیا سے جا چکے تھے۔
یہودیت کے اعلان کے بعد فیشل نے کراچی میں یہودی قبرستان کی حالت بہتر بنانے کی مہم شروع کی۔ اس کے ساتھ ہی فیشل نے اپنی شناختی دستاویزات میں اپنا مذہب اور نام تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ مارچ 2017 میں فیصل کو حکومت پاکستان نے یہودی تسلیم کرلیا۔ اس کے پاسپورٹ پر مذہب کے خانے میں یہودیت درج کردیا گیا۔ لیکن سامنے دوسرے صفحے پر پھر بھی وہی عبارت موجود تھی کہ یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔
اس منظوری کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ بقول فیشل پہلے انہیں نادرا دفتر سے نکال دیا گیا۔ پھر اچانک کہا گیا کہ وہ اسلام آباد میں نادرا کے مرکزی دفتر کو ای میل لکھیں اور پھر وزارت داخلہ سے منظوری مل گئی۔
اس معاملے میں یہ بات اہم ہے کہ 2014 سے پہلے سے فیشل کو پاکستانی برطانوی کرسچن ایسوسی ایشن کے چیئرمین ولسن چوہدری کی حمایت حاصل تھی۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ولسن چوہدری نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ساتھ فیشل کا معاملہ اٹھایا تھا۔ ولسن چوہدری وہی شخصیت ہیں جنہوں نے آسیہ کی رہائی کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی اور اسے برطانیہ میں پناہ دینے کے حق میں بھی آواز اٹھاتے رہے۔
’ماں یہودی نہیں‘
فیشل کو حکومت کی جانب سے پیدائشی یہودی تسلیم کیا گیا تو ان کے بڑے بھائی اقبال خالد نے اپنی والدہ پر ’’یہودی‘‘ ہونے کا لیبل لگنے کے خلاف احتجاج کیا۔ اقبال نے کئی اشاعتی اداروں کو خطوط لکھے۔ حتیٰ کہ ٹائمز آف اسرائیل سے بھی رابطہ کیا۔ اقبال کا کہنا تھا کہ ان کے والد اور والدہ میں سے کوئی بھی یہودی نہیں تھا۔ اقبال اور دیگر بھائیوں نے حلف نامے بھی جمع کرایا جن میں کہا گیا کہ ان کی والدہ چوہدری نسیم اختر کبھی یہودی نہیں تھیں۔ نہ ان کے آباو اجداد یہودی تھے نہ ہی انہوں نے کبھی مذہب تبدیل کیا نہ یہودیت پر عمل پیرا رہیں۔
کراچی کے رہائشی ایک بھائی شہزاد خالد کی جانب اس حلف نامے میں نہ صرف ان کی والدہ کے یہودی ہونے کی تردید کی گئی بلکہ یہ بھی بتایا گیا کہ خود فیصل ملازمت کیلئے سعودی عرب میں مقیم رہا اور اس دوران اس نے حج اور عمرہ کیا تھا۔
اقبال نے فیصل کی جدہ آمد پر لی گئی وہ تصویر بھی اخبارات کو فراہم کی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
ستمبر 2017 میں وائے نیٹ نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں فیشل نے تصدیق کی کہ ان کے ایک بھائی نے ان کے خلاف انٹرویوز دیئے ہیں جبکہ دیگر بھائیوں نے بھی ان سے تعلقات توڑ لیے ہیں۔ فیشل نے کبھی اقبال کا بھائی ہونے سے انکار نہیں کیا۔
تاہم وہ اپنے اور اپنی والدہ کے یہودی ہونے کے دعوے پر قائم ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کو انٹرویو میں فیشل کا کہناتھا کہ 2017 میں انہیں حکومت کی جانب سے یہودی تسلیم کیے جانے سے پہلے انہوں نے جو مہم چلائی تھی وہ سوشل میڈیا پر کافی مشہور ہوئی تھی اور ان کے بھائی بھی اس بات سے آگاہ تھے۔
فیشل نے کہا کہ ان کے بھائی اپنے خلاف ردعمل سے بچنے کیلئے یہ باتیں کر رہے ہیں۔
بڑے بھائی اقبال نے ٹائمز آف اسرائیل سے گفتگو میں کہا کہ وہ صرف اپنی والدہ کی ساکھ کی خاطر یہ وضاحت دے رہے ہیں۔
فیشل کے بھائیوں کی مہم کے باوجود حکومت پاکستان انہیں بدستور یہودی ہی تسلیم کرتی ہے۔
کیا اسرائیلی یہودی پاکستانی یہودی کو تسلیم کریں گے؟
فیشل کے بھائیوں کا مؤقف سامنے آنے کے بعد اسرائیل میں بھی اس معاملے پر بحث ہوئی۔ مذہبی معاملات میں اسرائیلی اپنے مذہبی قوانین ہلاخاہ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اس حوالے سے خصوصی عدالتیں بھی موجود ہیں۔ عام طور پر ایسے شخص کو یہودی تسلیم کرلیا جاتا ہے جس کے والدین کے بہن بھائیوں میں سے کوئی یہودی ہو، یا جس کے والدین یا دوسرے قریبی رشتہ دار یہودی قبرستان میں دفن ہوں۔
فیشل کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ ان کی والدہ کی تدفین بھی مسلمانوں کے قبرستان میں ہوئی تھی۔ جبکہ ان کے پاس کوئی دوسرا دستاویزی ثبوت بھی نہیں۔
فیشل کی جانب سے والد کے بجائے والدہ کے یہودی ہونے کے دعوے کو بھی اپنی یہودیت تسلیم کرانے کی کوشش کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کیونکہ یہودی والدہ کی نسل کو اہمیت دیتے ہیں۔
دستاویزات نہ ہونے کے باوجود ایک یہودی رابی ڈیوڈسن کا کہنا ہے کہ ہلاخاہ میں اس حواے سے کوئی واضح گائیڈ لائنز نہیں ہیں اور جو شخص بھی یہ کہے کہ وہ یہودی ہے، اسے یہودی تسلیم کر لیا جانا چاہئے۔ انہوں ںے اس حوالے سے روس آنے والے یہودیوں کی مثال دی جنہیں اسرائیل میں بسایا گیا تھا۔
تاہم حقیقت اتنی سادہ نہیں ہے۔ اسرائیل کسی بھی شخص کو محض یہودی کہہ دینے پر اپنے یہاں جگہ نہیں دیتا۔ کچھ عرصہ قبل افریقہ سے آنے والے سیاہ فام افراد جو یہودی ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے انہیں اسرائیل نے اپنے یہاں جگہ دینے سے انکار کردیا تھا۔
کیا یہ پاکستان سے باہر پناہ کی کوشش ہے؟
اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ بظاہر ایسا نہیں ہے۔ فیشل کے معاملے میں یہ بات واضح ہے کہ وہ ملازمت کے لیے بیرون ملک رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے اگر کسی یہودی کو اسرائیل جانا ہو تو خفیہ طور پر یہ ممکن ہے۔ کافی لوگ جانتے ہیں کہ پاکستانی پاسپورٹ والوں کو اسرائیل اپنا ویزا ایک الگ کاغذ پر جاری کردیتا ہے۔
فیشل نے جب پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے کا اعلان کیا تو انہیں بھی کچھ لوگوں ںے یہی مشورہ دیا کہ وہ الگ کاغذ پر ویزا لے کر چلے جائیں تاہم فیشل کا کہنا تھا کہ وہ خفیہ طور پر یہ کام نہیں کرنا چاہتے، علی الاعلان جانا چاہتے ہیں۔
پاسپورٹ میں مذہب کے خانے میں یہودیت درج ہونے کے فوراً بعد ہی فیشل نے اعلانیہ طور پر اسرائیل جانے کی اجازت کیلئے مہم شروع کر دی تھی۔ گذشتہ برس انہوں نے انگریزی جریدے ڈیلی ٹائمز می ایک مضمون بھی لکھا۔
فیشل کا کہنا ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ اگر معاملہ پناہ کا ہوتا تو خفیہ طور پر اسرائیل پہنچ کر اعلان کردینا ان کے لیے زیادہ آسان طریقہ تھا۔
فیشل کئی برسوں سے مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ یہودی شناخت تسلیم کیے جانے کے بعد وہ کراچی میں یہودی قبرستان کی حالت زار بہتر بنانے کے علاوہ شہر میں یہودی عبادت گاہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
مؤرخ گل حسن کلمتی کے مطابق کراچی میں 1988 سے پہلے ایک یہودی عبادت گاہ رنچھوڑ لائن کےعلاقے میں موجود تھی جو عرب اسرائیل جنگ کے بعد جلا دی گئی۔
شہر میں یہودیوں کا قبرستان میوہ شاہ قبرستان کے ساتھ واقع ہے، جہاں کئی قبروں پر چھ کونوں والا دائودی ستارا (ڈیوڈ اسٹار) بنا ہوا ہے۔
فیشل کی بدھ کو کئی جانے والی ٹؤئیٹ کے جواب میں بیشتر لوگوں نے مذہبی حقوق کی حمایت کا اظہار کیا تاہم کچھ کا خیال تھا کہ مذہب کو سیاست یا سفارتکاری کے پس منظر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
سینیٹ میں یہ معاملہ اٹھنے پر فیشل بن خالد نے جمعہ کو نئی ٹوئٹ میں بلواسطہ طور پر اپیل کی کہ انہیں جانے دیا جائے۔ انہوں نے قائداعظم کے اس قول کا حوالہ دیا کہ پاکستان میں لوگ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہوں گے۔