(فائل فوٹو)

فیس بک کا واٹس ایپ، انسٹاگرام اور میسنجر ضم کرنے کا اعلان

فیس بک نے انسٹاگرام، واٹس ایپ اور میسنجر پر اپنی میسجنگ سروس کو ضم کرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے، اب صارفین کو ایک ایپلیکیشن کے ذریعے تینوں سروسز میں پیغامات موصول ہو سکیں گے۔

یعنی اگر کسی کے پاس صرف واٹس ایپ ہے تو وہ فیس بک مسنجر یا انسٹا گرام رکھنے والے دوست کو بھی پیغام بھیج سکے گا۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق تینوں ایپلیکیشن منسلک کرنے کا کام پہلے سے شروع ہوچکا ہے، اور اس سال کے آخر یا اگلے سال کے شروعات میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔

فیس بک نے کہا ہے کہ یہ ایک طویل عمل کی شروعات ہے۔

اب تک واٹس ایپ، انسٹاگرام اور میسنجر علیحدہ علیحدہ ایپلیکیشن کی حیثیت سے کام کر رہے تھے لیکن تینوں ایپلیکیشن کو منسلک کرنے کا منصوبہ مکمل ہونے کے بعد فیس بک صارف صرف واٹس ایپ استعمال کرنے والے صارفین سے بھی براہ راست رابطہ کر سکیں گے۔ جبکہ تینوں ایپلیکیشن الگ الگ ہی برقرار رہیں گی، لیکن اندرونی طورپر تینوں ایپلیکیشن آپس میں منسلک ہوں گی ۔

تینوں ایپلیکیشن منسلک ہونے کےبعد فیس بک کو اشتہارات ملنے کا کام بھی آسان ہوجائے گا اور کمپنی کو تینوں ایپلیکیشن کے درمیان مقابلے کے لئے نئے فیچرز کے ساتھ نئے ورژن بنانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی، جیسے کے ابھی تینوں ایپلیکیشن نے آپس میں مقابلہ کے لئے اسٹوری کا فیچر شامل کیا ہے۔

فیس بک کے بانی مارک زاکربرگ کا یہ منصوبہ سب سے پہلے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں رپورٹ کیا گیا۔

فیس بک کی جانب سے اپنے ایک بیان میں کہا گیا کہ’ہم میسجنگ کے تجربے کو جتنا ہوسکے اتنا بہتر بنانا چاہتے ہیں، اور لوگ میسج کو تیز، آسان، قابل اعتماد اور پرائیوٹ چاہتے ہیں‘۔

فیس بک نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے میسجنگ پراڈکٹس کو شروع سے آخر تک محفوظ بنانا چاہتے ہیں اور نیٹ ورک بھر میں دوستوں اور گھر والوں تک رسائی کے لئے آسان بنانے پر غور کر رہے ہیں‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس میں ابھی بہت بحث اور مباحثہ ہے کہ آخر سسٹم کیسے کام کرے گا۔

تینوں ایپلیکیشن کو آپس میں منسلک کرنے سے فیس بک پر بڑی تبدیلی کی علامت بن سکتے ہیں، اس سے پہلے واٹس ایپ اور انسٹاگرام کو آزادانہ کمپنی کے طور پر کام کرنے دیا جا رہا تھا۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق مارک زاکربرگ کی میسج کے نظام کو منسلک کرنے کی یہ منصوبہ بندی اندرونی اختلافات کی وجہ بن چکے ہیں۔ واٹس ایپ اور انسٹاگرام کے بانی کا آخری سال کام چھوڑ دینا بھی اسی وجہ کا حصہ ہے۔