امریکی ریاستوں مینیسوٹا اور کنساس میں دو الگ الگ ملیشیا گروہوں کے خلاف مساجد پر دھماکے کرنے کے مقدمات اس ہفتے تقریباً مکمل ہوگئے ہیں۔ دونوں سفید فام ملیشیا فورسز کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کو امریکہ سے بھگانا چاہتے تھے۔ ہر مقدمے میں کم ازکم 3 سفید فام افرادملوث ہیں جن میں ایک ڈپٹی شیرف بھی شامل ہے
۔ تاہم امریکہ میں مقامی ٹی وی چینلز سے لے کر سرکاری خبر رساں ادارے تک کوئی بھی انہیں ’’دہشت گرد‘‘ نہیں لکھ رہا۔
پہلا مقدمہ مینیسوٹا کا ہے جہاں ڈاکٹر الفاروق اسلامک سینٹر کی مسجد میں 5اگست 2017 کی صبح اس وقت بم حملہ کیا گیا تھا جب نمازی فجر کے لیے جمع ہو رہے تھے۔
اس دھماکے کا مرکزی کردار ریاست الی نوائس کا ایک سابق ڈپٹی شیرف مائیکل ہیری ہے جو ایک سیکورٹی کمپنی چلاتا ہے اور جس نے میکسیکو کی سرحد پر باڑ لگانے کا ٹھیکہ حاصل کرنے کیلئے بولی بھی دی تھی۔
مائیکل ہیری کے دو ساتھیوں جو مورس اور میک وورٹر نے اعتراف جرم کرلیا ہے تاہم مائیکل ہیری وفاقی تحویل میں ہے لہٰذا اس پر مقدمے کے بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
استغاثہ کے مطابق ان تینوں نے وائٹ ریبٹس (سفید خرگوش) کے نام سے ملیشیا بنا رکھی تھی۔ اعتراف جرم کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان میں ملزم نے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے امریکہ سے بھگانا چاہتے تھے۔
انہوں نے مسجد کا شیشہ توڑ کر وہاں سے پائپ بم اندر پھینکا تھا۔
مورس اور میک ورٹر کا اعتراف جرم 25 جنوری کو سامنے آیا جبکہ گذشتہ ڈیڑھ برس سے ان کا کیس چل رہا ہے لیکن اسے امریکی میڈیا میں بہت معمولی کوریج ملی اور کہیں بھی انہیں دہشت گرد نہیں لکھا گیا۔
مسجد کے علاوہ ان پر ایک اسقاط عمل کلینک اور دیگر مقامات پر حملوں کا بھی الزام ہے۔
اسی نوعیت کا ایک کیس ریاست کینساس میں بھی چلا جہاں سفید فام ملیشیا کے تین ارکان کو 26 سے 30 برس تک سزائیں بھی ہوگئیں۔
پیٹرک اسٹائن، کرسٹن ایلن، اور گیون رائٹ نے کینساس کے شہر گارڈن سٹی میں ایک مسجد اور صومالی مسلمانوں کی رہائشی عمارت کو دھماکوں سے اڑانے کی منصوبہ بندی کی تھی تاہم انہی کی ملیشیا کے ایک رکن کی مخبری کے باعث منصوبہ ناکام ہوگیا۔
ملزمان کے وکلا نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ عدالت اس بات کو مد نظر رکھے کہ امریکہ کی منقسم سیاسی صورت حال میں ان کے موکلین نے یہ منصوبہ بنایا۔
پیٹرک کے وکیل نے کہا کہ ان کے وکیل کو خدشہ تھا کہ ٹرمپ کے صدر بننے کی صورت میں اوباما الیکشن کو تسلیم کرنے کے بجائے مارشل لا لگا دیں گے لہٰذا ان کی ملیشیا کو مداخلت کرنا ہوگی۔
اس مقدمے میں بعض صومالی مسلمانوں کے ویڈیو بیانات بھی پیش کیے گئے جن میں سے ایک خاتون افراح فریاد کرتی ہیں، ’’ہم سے نفرت نہ کرو، ہم تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے۔‘‘
تین ملزمان میں سے کرسٹن ایلن نے ان لوگوں سے معافی مانگی جو اس منصوبے کی وجہ سے خوف و ہراس کا شکار ہوئے تاہم گینگ لیڈر پیٹرک اسٹائن نے صرف اپنے اہلخانہ سے معذرت کی۔