سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسفند یار کو 10 سال بعد بری کرنے کے احکامات جاری کردیے۔
یاد رہے کہ لاہور کے رہائشی عادل بٹ کو 2009 میں قتل کر کے اس کی لاش نہر میں پھینک دی گئی تھی، ٹرائل کورٹ نے ملزم اسفندیار کو سزائے موت سنائی جس کے بعد ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ استغاثہ مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لیے ملزم کو بری کیا جاتا ہے،مجسٹریٹ نے شناخت پریڈ درست نہیں کی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔
سپریم کورٹ نے مجسٹریٹ کنور انوار علی کو 22 فروری کو ذاتی حثیت میں طلب کر لیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ایسے کیس دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے،ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے،ایک بچہ قتل ہو گیا،غلط شناخت پریڈ اورقانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کو سزا ہو گئی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جنہیں قانون پر عمل کرنا ہے ان سے پوچھنا تو چاہیے،کیا مجسٹریٹ لگانے سے پہلے ان کی ٹریننگ نہیں ہوتی۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجسٹریٹ کو تعیناتی کے پہلے کورسز کرائے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عدالتی قانون سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتے،ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے قانون کو کیوں نہیں دیکھا،یہ ملک ہمارا ہے اس میں ہمارے بچوں کو رہنا ہے،کسی کو تو شروعات کرنی ہے،ہم روز قتل کیسز میں دیکھتےہیں پولیس اصل ملزم تک پہنچ جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے برہم ہو کر کہا کہ ملزم اصلی اور شہادتیں سب نقلی ہوتی ہیں،اگر ہم بھی آنکھیں بند کر دیں تو قانون کدھر جائے گا،ایسا لگتا ہے ملزم گرفتار ہوا پھر شہادتیں بنائی گئیں۔