امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی دو خواتین کو افغان طالبان نے برقعے پہنا دیئے۔ ان خواتین نے 36 گھنٹے طالبان کے ساتھ گزارے ہیں اور طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں پر دستاویزی رپورٹ تیار کی ہے۔
طالبان کے علاقے میں جانے والی سی این این کی ٹیم میں مسلمان ٹی وی پروڈیوسر سلمیٰ عبدالعزیز شامل تھیں جو عرب والدین کی امریکی اولاد ہیں اور پہلے بھی پرخطر علاقوں میں کام کر چکی ہیں۔
سلمیٰ عبدالعزیز کے ساتھ رپورٹر کے طور پر کلاریسا والڈ طالبان کے علاقے میں گئیں۔ افغان نژاد برطانوی پروڈیوسر نجیب اللہ قریشی نے ان دونوں خواتین کو طالبان تک پہنچانے اور دستاویزی فلم بنانے میں معاونت فراہم کی۔
سلمیٰ عبدالعزیز اور کلاریسا والڈ نے آئندہ پیر کو نشر کی جانے والی اس دستاویزی فلم کا ایک مختصر کلپ جاری کیا ہے جس میں برقع پہنے کلاریسا والڈ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ طالبان کے زیر انتظام علاقے سے رپورٹنگ کریں گی۔
کلاریسا نے اس سے پہلے عراق اور شام سے بھی رپورٹنگ کی گئی تھی تاہم وہاں انہوں نے برقع نہیں پہنا۔ طالبان کے علاقے میں نہ صرف وہ برقعے میں دکھائی دیں بلکہ بعض مناظر میں ان کے چہرے پر نقاب بھی تھا۔
عرب والدین کی اولاد سلمیٰ عبدالعزیز امریکہ اور برطانیہ میں مغربی طرز کے ملبوسات ہی پہنتی ہیں لیکن انہیں بھی طالبان کے علاقے میں برقع لینا پڑا۔
Very excited to share this project @SalmaCNN and @najibquraishi and I have been working on for months. Don’t miss “36 Hours with the Taliban” next week. pic.twitter.com/EmNqz3fukm
— Clarissa Ward (@clarissaward) February 21, 2019
یہ خواتین ایک دینی مدرسے اور بعض گھروں میں بھی گئیں۔ انہوں نے طالبان علاقے میں خواتین سے بات چیت کی اور پوچھا کہ ان کی زندگی کس حد تک تبدیل ہوئی ہے۔
اس سے پہلے طالبان کے علاقے سے کسی خاتون کی رپورٹنگ کا مشہور ترین واقعہ یوآن ریڈلے کا ہے جو نائن الیون کے بعد اور افغانستان امریکی حملے سے پہلے ستمبر 2001 میں وہاں گئی تھیں۔ تاہم طالبان نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔ وہ گیارہ روز تک طالبان کی قید میں رہیں۔ ان کا رویہ دیکھ کر مسلمان ہوگئیں۔
یوآن ریڈلے نے طالبان علاقے میں چوری چھپے جانے کیلئے برقع پہنا تھا لیکن قبول اسلام کے بعد مریم ریڈلے بننے کے بعد وہ برسوں سے مستقل عبایہ اور حجاب میں دکھائی دیتی ہیں۔
افغانستان میں خواتین کے برقع کے لیے اکثر طالبان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور اسے جبر قرار دیا جاتا ہے لیکن افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران کابل انتظامیہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی خواتین روایتی شٹل کاک برقعے میں دکھائی دیتی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ انتخابات کے دوران طالبان بائیکاٹ کو نظرانداز کرکے پولنگ اسٹیشنوں پر قطاروں میں کھڑی خواتین کو بھی برقعے میں دیکھا گیا۔