بھارتی طیاروں کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد دن بھر دونوں جانب سے مختلف بیانات سامنے آتے رہے جن میں سے بعض کی بعد ازاں تصدیق ہوئی تو کچھ ہی تصحیح کی گئی۔ ان میں سے سب سے اہم بیانات اس حوالے سے تھے کہ بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں کتنے اندر تک آئے اور کتنی دیر رہے۔ بھارتی میڈیا نے پہلے دعویٰ کیا کہ طیارے 21 منٹ تک پاکستانی حدود میں رہے اور تین جگہ حملہ کیا گیا۔ لیکن بعد ازاں یہ دعویٰ واپس لے لیا گیا اور کہا گیا کہ حملہ دو منٹ سے بھی کم وقت تک جاری رہاجو ایک ہی جگہ ہوا۔
اسی طرح حملے کی تفصیلات بھی مختلف ذرائع سے ٹکڑوں کی صورت میں سامنے آئی ہیں اور یہ واضح ہوا ہے کہ بھارت نے کئی جگہ سے حملے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہا۔ اس کے علاوہ بھارتی وزارت دفاع حملے سے مکمل لاعلم تھی۔
ذیل میں حملے سے متعلق دستیاب حقائق ٹائم لائن کی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
پیر اور منگل کی درمیانی شب رات 3 بجے کے بعد — بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے علاقے گوالیار سے بھارتی فضائیہ کے 12 میراج 2000 جنگی طیارے فضا میں بلند ہوئے۔ عین اسی وقت بھارت کے دیگر ہوائی اڈوں سے بھی جنگی طیاروں سے پروازیں کیں۔ بھارتی اخبارات ٹائمز آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمز کے مطابق فضائی حملے میں بھارتی فوج کی سنٹرل اور ویسٹرن(مغربی) کمانڈز نے حصہ لیا اور بیک وقت کئی جگہ سے جہاز اڑائے گئے۔
سنٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹرز لکھنو میں ہے جبکہ مغربی کمانڈ کا ہیڈکوارٹرز ہریانہ میں ہے۔ انہی علاقوں میں مختلف ہوائی اڈوں سے بھارتی جنگی طیاروں نے پروازیں کیں۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفورنے اپنی پریس کانفرنس میں تصدیق کی کہ بھارتی جہازوں سے ایک سے زیادہ جگہ سے حملے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے سیالکوٹ لاہور سرحد کے قریب بھارتی طیارے دکھائی دیئے جنہیں روکنے کیلئے پاکستان طیارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے ان کے سامنے آگئے۔ بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہوئے۔ دوسری بار اوکاڑہ بہاولپور کے سیکٹر میں گھسنے کی کوشش کرنے والے بھارتی طیاروں کو روکا گیا جبکہ تیسری اور زیادہ بڑی فارمیشن مظفر آباد سیکٹر میں کرن ویلی کی طرف سے آئی جو تین چار میل پاکستانی حدود میں داخل ہوئی۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے لکھا کہ کئی جگہ سے طیارے اڑانے کا مقصد پاکستانی دفاعی حکام کو ’کنفیوژ‘ کرنا تھا۔
میراج طیاروں نے ہریانہ کے قریب آدم پور کے علاقے کے اوپر پرواز کے دوران ہی دوبارہ فیول حاصل کیا۔ پاکستانی ریڈاروں سے بچنے کیلئے انہوں نے نیچی پروازیں کیں اور پاکستانی حدود میں داخل ہوئے۔
بھارتی میڈیا کے بقول حملے میں حصہ لینے والے میراج طیاروں کو 16 عدد سخوئی 30 جنگی جہازوں کی حمایت حاصل تھی۔ سخوئی طیارے پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہوئے لیکن ان کی مدد کیلئے فضا میں موجود تھے۔ بھارت کے دو اواکس طیارے بھی اپنے ریڈار نظام کے ساتھ ان کی معاونت پر تھے۔
پاک فوج ترجمان کے مطابق مظفر آباد سیکٹر سے آنے والی بھارتی فارمیشن بھی ریڈار پر دیکھ لی گئی اور پاک فضائیہ کی تیسری فضائی پیٹرولنگ ٹیم نے انہیں وہاں پہنچ کر چیلنج کیا اس وقت تک یہ کنٹرول لائن پار کر چکے تھے۔ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فضائی پیٹرولنگ ٹیم کے طیاروں کے پہنچنے کے دوران بھارتی طیارے آتے اور جاتے ہوئے مجموعی طور پر چار منٹ پاکستانی حدود میں رہے۔
ترجمان کے مطابق بھارتی فارمیشن چار سے پانچ ناٹیکل میل پاکستان کے اندر آئی۔ پاک فضائیہ نے چیلنج کر کے اسے پسپا ہونے پر مجبور کردیا بھارتی طیارے اپنا پے لوڈ jettison (پھینکتے) ہوئے واپس لوٹ گئے۔ بھارتی طیاروں کے واپسی کے اینگل اور اپنی trajectory کی وجہ سے یہ پے لوڈ آزاد کشمیر سے باہر خیبرپختون خواہ میں بالا کوٹ کے علاقے جابہ میں پہاڑی پر گرا۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ چار بم تھے۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق ’آپریشن‘ رات 3 بج کر 45 منٹ پر شروع ہوا اور 4 بج کر 5 منٹ پر ختم ہوگیا۔ جبکہ ’اصل حملہ 2 منٹ سے بھی کم وقت تک جاری رہا‘۔ ہندوستان ٹائمز نے ’آپریشن‘ کا ذکر کرتے ہوئے مختلف ہوائی اڈوں سے بھارتی طیاروں کے پرواز کرنے کو بھی شمار کیا۔
اخبار نے لکھا کہ اس تمام آپریشن کو دہلی میں ایئر ہیڈکوارٹرز میں مانیٹر کیا گیا جہاں وزیراعظم نریندر مودی، وزیر دفاع نرملا سیتارامن، مشیر سلامتی اجیت دوول اور مسلح افواج کے سربراہان موجود تھے۔
صبح 4 بج کر 42 منٹ — پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر لکھا کہ بھارتی طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ بھارتی حملے کے حوالے سے پہلی خبر تھی۔ بھارتی حکام ابھی مکمل خاموش تھے۔ اس ٹوئیٹ کے کچھ دیر بعد پانچ بجے کے لگ بھگ پاکستانی میڈیا پر پہلی خبر آئی۔
صبح 6 بج کر 36 منٹ — جنرل آصف غفور نے ایک اور ٹوئیٹ کی۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ بھارتی طیاروں نے مظفر آباد سیکٹر سے دراندازی کی۔ پاک فضائیہ نے جواب دیا اور بھارتی طیارے اپنا پے لوڈ بالا کوٹ کے قریب پھینک کر فرار ہوگئے۔
صبح 8 بجکر 53 منٹ — پاکستانی وقت کے مطابق 8 بجکر 53 منٹ اور بھارتی وقت کے مطابق 8 بجکر 23 منٹ پر بھارتی اخبار دی ہندو نے ایک خبر شائع کی جس میں بتایا گیا کہ بھارتی وزارت دفاع کنٹرول لائن کے پار کسی بھی حملے سے لاعلم ہے۔ اس سے کچھ دیر پہلے بھارتی میڈیا نے پاک فوج کے ترجمان کا بیان دعوے کے طور پر شائع کیا۔
صبح 9 بجکر 9 منٹ —- پاک فوج کے ترجمان کی تیسری ٹوئیٹ۔ اس مرتبہ انہوں نے بتایا کہ بھارتی طیارے تین چار میل پاکستانی حدود میں آئے اور یہ کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا نہ ہی انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔ بھارتی حکام تاحال خاموش۔
صبح ساڑھے 9 بجے — بھارتی ذرائع ابلاغ میں بھارت کی فضائیہ کو ہائی الرٹ کرنے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ ذرائع کے حوالے سے جیش محمد کے کیمپ کو نشانہ بنانے کے دعوے کیے گئے۔
صبح 11 بجے — بھارتی سیکریٹری خارجہ وجے گوکھلے نے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کے ساتھ بیٹھ کر ایک پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں انہوں نے انگریزی میں لکھا ایک بیان پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ بالا کوٹ میں یوسف اظہر عرف استاد غوری کی سربراہی مٰں چلنےو الے جیش محمد کے کیمپ پر حملہ کیا گیا، جو ’غیر عسکری پیشگی ہدف‘ تھا۔ خیال رکھا گیا کہ فوجیوں اور شہریوں کا جانی نقصان نہ ہو۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ’کچھ ہی دیر پہلے‘ ہوا ہے اور ہم مزید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں۔ وجے گوکھلے نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا اور مختصر بیان پڑھنے کے بعد اٹھ گئے۔ پریس کانفرنس میں ہلاکتوں کا دعویٰ کیا گیا تاہم کوئی تعداد نہیں بتائی گئی۔
دونوں جانب سے تصدیق کے بعد پاکستان اور بھارت میں اعلیٰ سطح پر اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
کیا حملہ جیش محمد کے کیمپ پر کیا گیا؟
جس وقت بھارتی سیکریٹری خارجہ نے پریس کانفرنس کی اس وقت تک بالاکوٹ کے علاقے جابہ میں صحافی اور مقامی افراد حملے کے مقام تک پہنچ چکے تھے۔ مقامی لوگوں نے اس جگہ کسی بھی کیمپ کی تردید کی۔
بھارت کی جانب سے حملے پر سرکاری بیان صرف سیکریٹری خارجہ کا آیا۔ نہ تو بھارتی افواج کے سربراہان اور نہ ہی دیگر کوئی عہدیدار اس پر بولا۔ حتیٰ کہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی ریلی سے خطاب میں حملے کا واضح ذکر نہیں کیا۔ رات کو نائب وزیر خارجہ نے اس پر عمومی بات کی۔
تاہم بھارتی میڈیا نے سرکاری حکام کے حوالے سے جملے کی تفصیلات پر خبریں نشر اور شائع کیں۔ جن میں 200 سے 600 شدت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے کیے گئے۔ بھارتی میڈیا ایک بڑے گیٹ پر مشتمل عام سی عمارت کی تصاویر یہ کہہ کر شائع کرتا تھا کہ یہ تباہ ہونے والے کیمپ کے مناظر ہیں۔ اس کے ساتھ رپورٹوں میں کیمپ 6 ایکڑ پر پھیلا ہونے اور وہاں 600 افراد کی گنجائش کے دعوے کیے گئے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک بھارتی تجزیہ کار راہول بیدی کا مؤقف شائع کیا۔ بیدی کا کہنا تھاکہ جس علاقے میں حملہ کیا گیا وہاں کبھی ایک تربیتی کیمپ ہوتا تھا جو 2005 میں زلزلے کے بعد سے ختم ہوچکا ہے۔
بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ جس کیمپ کو نشانہ بنایا گیا وہ دریائے کنہار کے کنارے تھا اور یہاں عسکریت پسندوں کو پانی میں زندہ رہنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ تاہم انٹرنیٹ پر عام دستیاب نقشوں سے بھی واضح ہے کہ دریائے کنہار جابہ سے بہت دور گزرتا ہے۔
ردعمل سے بچنے کیلئے بھارتی کوششیں
حملے کے بعد بھارتی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلایا اور ان سے مشاورت کی۔ نئی دہلی میں تعینات تمام غیرملکی سفیروں کو بریفنگ بھی دی گئی۔ اس بریفنگ میں پورا زور اس بات پر تھا کہ بھارت کشیدگی نہیں چاہتا۔
اس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ شمسا سوراج اپنے خصوصی طیارے میں چین، روس اور دیگر ممالک کے دورے پر روانہ ہوگئیں۔ روانگی سے پہلے شمسا سوراج نے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کو فون بھی کیے۔ اور وضاحتیں پیش کیں۔