پاکستان سے محاذ آرائی اور جنگی صورت حال نے بھارت کو صرف عسکری میدان میں ہی نقصان سے دوچار نہیں کیا بلکہ اسے سفارتی اور اقتصادی میدان میں بھی شدید دھچکے لگ رہے ہیں۔
نیا دھچکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کی صورت میں آیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ بھارت نے امریکی مصنوعات پر ’ بہت زیادہ زیادہ ٹیرف‘ لگا رکھا ہے لہٰذا امریکہ بھی اپنے یہاں آنے والی بھارتی منصوعات پر ’جوابی ٹیکس‘ لگائے گا۔
یہ وہی امریکہ ہے کہ جو دو عشروں سے بھارت کے ساتھ قریبی تجارتی اور سفارتی رکھے ہوئے ہیں حتیٰ کہ بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنوانے میں امریکہ نے ہی مدد کی تھی۔
تاہم امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے مضامات میں کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہاکہ بھات ایک ہائی ٹیرف ملک ہے۔ وہ ہم سے بہت زیادہ پیسے لیتے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس کی ایک مثال ہارلے ڈیوڈسن موٹرسائیکلوں کی درآمد و برآمد ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم ایک موٹرسائیکل بھارت بھیجتے ہیں تو وہ سو فیصد ٹیکس لگاتا ہے۔ جب بھارت سے موٹرسائیکل امریکہ درآمد کی جاتی ہے تو کمال ہے کہ ہم ان سے کچھ بھی نہیں لیتے۔
ٹرمپ نے کہاکہ ’لہٰذا میں جوابی ٹیکس چاہتا ہوں، یا کم از کم میں ٹیکس لگانا چاہتا ہوں، اسے مرر (منعکس) ٹیکس کہا جائے گا، لیکن یہ جوابی ٹیکس ہوگا۔‘‘
بھارتی حکومتوں بالخصوص من موہن سنگھ کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ قریبی سفارتی تعلقات قائم کیے تھے اور آئی ٹی کے ماہر بھارتی نوجوانوں ایچ ون بی ویزا پر امریکہ بھیجنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا تاہم گذشتہ برس نومبر میں ٹرمپ نے ایچ ون بی ویزا اجرا کی روک دیا تھا جس سے بھارتی بھی متاثر ہوئے۔
اب ٹرمپ کھل کر بھارت کے خلاف آئے ہیں۔
ترمپ کے اعلان سے پہلے جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے ٹوئٹر پر ایک تبصرے میں کہا تھا کہ پاک بھارت محاذ آرائی سے ایک سبق یہ لیا جاسکتا ہے کہ اب تک بھارت نے دنیا کے سامنے پاکستان سے بہتر ہونے کی جو ساکھ بنا رکھی تھی اسے گذشتہ چند دن میں دھچکہ پہنچا ہے۔
او آئی سی اجلاس میں بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے
ٹرمپ کا اعلان سامنے آنے سے ایک روز قبل او آئی سی نے مقبوضہ کشمیر میں ’’بھارتی دہشت گردی‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا تھا جسے مسلمان ممالک بالخصوص عرب ممالک کے ساتھ شیروشکر ہونے کی بھارتی کوششوں کی ناکامی سجھا جا رہا ہے۔