مسلمانوں کے قتل عام پر بھارتی ہندوتوا پیروکاروں کا جشن

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں 49 مسلمانوں کے قتل عام پر بھارت میں ہندوتوا کے پیروکاروں نے جشن منایا۔ بھارتی فوج کے سابق افسران سمیت ہزاروں ہندو انتہا پسندوں نے سوشل میڈیا پر آکر سفید فام دہشت گرد کے اقدام کا دفاع کیا اور اسے ’’انتقام‘‘ قرار دیا۔ ہندوتوا کے پیروکارو بھارتیوں کا رویہ اتنا غلیظ ثابت ہوا کہ بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے کٹر مخالف پروفیسر طارق فتح بھی چلا اٹھے۔

بھارتی صحافی برکھا دت نے کرائسٹ چرچ کے حملہ آور کو دہشت گرد قرار دیا تو ہندوتوا کے پیروکاروں نے ان پر چڑھائی کردی۔

نیوزی لینڈ کے واقعے نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی ہے کہ بھارتی ہندوتوا کے پیروکاروں کی نظر میں ان کا دشمن پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان ہیں۔ کرائسٹ چرچ دہشت گردی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نیوزی لینڈ کی ہم منصب کے نام ایک خط میں تعزیت کا اظہار کیا اور واقعے پر رسمی مذمات کی تاہم 49 مسلمانوں کی شہادت پر بھارت میں جمعہ کو جشن منایا جاتا رہا۔

بھارت کے بڑے انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنی شہ سرخیوں مسلمانوں کے قتل کی نہیں لگائی بلکہ لکھا کہ ’’سفید فام قوم پرست انتقام‘‘ لینا چاہتا تھا۔  اس سرخی کے نیچے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر لگائی گئی جس میں گورے دہشت گرد کا تمام مؤقف پیش کیا گیا۔ خبر کے نیچے سینکڑوں بھارتیوں نے تبصرے کیے۔ جو تبصرہ سب سے زیادہ مقبول قرار پایا وہ ایک سابق کرنل ماتھیز کا تھا جس نے کہاکہ آسٹریلوی پرامن لوگ ہیں، اصل مجرم مسلمان ہیں جنہوں ںے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

کمل ناتھ سنگھ نے لکھا کہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پلوامہ کا انتقام لے لیا گیا۔ دیگر تبصروں میں بھی اسی طرح کرائسٹ چرچ دہشت گردی کی حمایت کی گئی۔ یہ صرف ایک ویب سائیٹ کا احوال ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی ہندو انتہا پسندوں نے بڑھ چڑھ کر پلوامہ حملے اور کرائسٹ چرچ دہشت گردی کو مساوی قرار دینے کی کوشش کی۔حالانکہ اس حملے کے بعد بھارت کے شہری 9 مسلمان بھی لاپتہ ہیں لیکن پورے بھارت میں جشن کا ماحول رہا۔

’’آج تو کرائسٹ چرچ کی خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘ ’’ایسا لگتا ہے وہ (ویڈیو گیم) پب جی کھیل رہا ہے‘‘ ’’مجھے افسوس  ہے کہ شوٹر اتنا کمزور تھا کہ وہ درست ٹارگٹ نہیں ڈھونڈ سکا۔ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم وہیں تھی۔‘‘ ’’ایک گیند 54 وکٹ‘‘ وہ چند ایک تبصرے ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے۔

ہندوانتہا پسندوں نے یہ بھی لکھا کہ نیوزی لینڈ میں مساجد کا کیا کام تھا، مغربی معاشرہ اب اسلام کے خلاف بیدار ہوگیا ہے۔  بھارتی ذرائع ابلاغ بھی حملہ آور کو دہشت گرد کے بجائے ’’شوٹر‘‘ کہتے رہے۔

معروف صحافی برکھا دت نے جب ٹوئٹر پر لکھا کہ جو کرائسٹ چرچ حملہ آور کو دہشت گرد نہیں کہے گا وہ ذہنی مریض ہوگا تو تمام انتہا پسندوں نے ان پر چڑھائی کردی۔

یہ جشن اس حد تک بڑھا کہ پاکستان مخالف پروفیسر طارق فتح نے کہا کہ اب اگر مزید کسی نے خوشی منا کر انہیں ٹیگ کیا تووہ اسے بلاک کردیں گے۔ یاد رہے کہ طارق فتح نہ صرف پاکستان کے سخت مخالف ہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کو بھی اکثر مشورے دیتے رہتے ہیں کہ وہ بابری مسجد اور دیگر مساجد کی جگہ ہندوؤں کے حوالے کردیں لیکن 49 افراد کے قتل پر جشن منانے والے ہندوتوا پیروکاروں کا کراہت سے بھرپور چہرہ سامنے آنے پر طارق فتح کی بھی بس ہوگئی۔