مسلم لیگ(ن) کے کارکن اور حامی ہفتہ کی شام اس وقت شدید مشتعل ہوگئے جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ایک لیب رپورٹ سامنے آئی جس پر پتے لکھنے کے خانے میں الزام تراشی پر مبنی ایک سیاسی جملہ درج تھا۔
لاہور کی چغتائی لیب کی اس رپورٹ میں لکھا کہ ’’برائے مہربانی قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس کریں اور جہاں چاہیے رہیں۔‘‘ چغتائی لیب کی ویب سائیٹ پر بھی یہ رپورٹ دستیاب تھی اور مریض کا نمبر ڈال کر کوئی بھی شخص اسے آن لائن دیکھ سکتا تھا۔
متعدد لوگوں نے آن لائن اس رپورٹ کی دوبارہ تصدیق کی تو انہیں وہاں بھی اس متنازع سیاسی جملے سمیت رپورٹ ملی جس پر لیگی کارکنوں میں اشتعال پھیل گیا۔
کئی غیرجانبدار لوگوں نے بھی اس رپورٹ پر چغتائی لیب کے رویے کو غیرپیشہ وارانہ قرار دیا۔
’’امت‘‘ کی تحقیق میں متنازعہ جملہ لکھنے کی پوری حقیقت سامنے آگئی ہے۔ لیکن کچھ سوالات بھی باقی ہیں۔
چغتائی لیب کی مذکورہ رپورٹ کو پہلے کچھ لوگ فوٹوشاپ سے تیار کردہ سمجھے لیکن آن لائن تصدیق ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر چغتائی لیب کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوگئی۔ کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ چونکہ مسلم لیگ(ن) کی پنجاب حکومت نے صوبے میں ہیپاٹائٹس ٹیسٹ مفت کر دیئے تھے لہذا اپنے کاروبار پر زد پڑنے کے جواب میں چغتائی لیب نے میاں نوازشریف کے خلاف یہ اقدام کیا ہے۔
لوگوں نے چغتائی لیب سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیب ڈائریکٹر تحریک انصاف کے کارکن ہیں اور نواز شریف سے نفرت کتے ہیں۔
لیبارٹری نے معافی تو نہیں مانگی البتہ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ ان کے لیے تمام مریض قابل احترام ہیں اور رپورٹس تک آن لائن رسائی بند کردی گئی ہے۔
لیبارٹری کی جانب سے اس جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ یہ تمام شرارت شروع کیسے ہوئی۔
دراصل مریم نواز شریف نے جمعہ کی شام اپنے والد کی ایک رپورٹ شیئر کی تھی جس میں ان کے یوریا اور کریٹینن کی معلومات درج تھیں۔ اسی رپورٹ پر میاں نوازشریف کا مریض نمبر اور کیس نمبر بھی موجود تھا۔
ان دونوں نمبروں کے ذریعے چغتائی لیب کی ویب سائیٹ پر کسی بھی مریض کی تمام رپورٹوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مریم نواز کی جانب سے رپورٹ شیئر ہونے کے بعد بظاہر تحریک انصاف کے حامیوں نے دیگر رپورٹوں تک رسائی حاصل کرلی۔
اسی دوران تحریک انصاف کے ایک حامی نے چغتائی لیب کے سسٹم میں گھس کر پتے کی جگہ مذکورہ متنازع جملہ لکھ دیا۔اس شخص نے مذکورہ جملے کے ساتھ اپنا ٹوئٹر ہینڈل @endlessquest92 بھی درج کیا اور بعد ازاں ٹوئٹر پر تصدیق کی کہ اس نے رپورٹ میں پتے کی جگہ ایڈیٹنگ کی ہے۔
اس شخص نے ہفتہ کی شام تک ٹوئٹر پر اپنا نام سید احمد افتخار لکھا ہوا تھا۔ اس نے ٹوئٹر پر رپورٹ میں ترمیم کرنے کی تصدیق بھی کی تاہم جب لیگی کارکنوں کا سخت ردعمل سامنے آیا تو اس نے اپنے نام کی جگہ wa5 لکھ دیا۔ لوکیشن بھی ہٹا دی اور اعتراف کرنے والی ٹوئیٹس بھی ڈیلیٹ کردیں۔
چغتائی لیب نے بھی اپنی وضاحتی ٹوئیٹس میں کہا کہ ٹوئٹر کے اس صارف نے رپورٹ میں ترمیم کی اور اس شخص کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک اور ٹوئیٹ میں چغتائی لیب کی جانب سے مریم نواز کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا گیا کہ کسی کو اپنی رپورٹس کی تفصیلات آن لائن شیئر نہیں کرنی چاہئیں۔
چغتائی لیب کا مؤقف ہے کہ مذکورہ جملہ لیب کے عملے نے نہیں لکھا بلکہ ایک ٹوئٹر صارف کی کارستانی تھی۔ لیبارٹری کی جانب سے کہا گیا کہ مریض کی آئی ڈی کے ذریعے رپورٹ تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور مریض کا پتہ اور پروفائل کی دیگر معلومات تبدیل بھی کی جاسکتی ہیں۔
تاہم چغتائی لیب کی یہ وضاحت لیگی کارکنوں کو مطمئن نہیں کرسکی۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی رپورٹس عدالتوں میں بھی پیش کی جاسکتی ہیں اگر کوئی بھی انہیں تبدیل کرسکتا ہے تو ان پر اعتبار کون کرے گا۔
لیگی کارکنوں کا کہنا ہے کہ تضحیک کا یہی وہ خدشہ تھا جس کی وجہ سے میاں نواز شریف پاکستان میں علاج کرانے سے انکار کر رہے تھے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے کارکنوں نے چغتائی لیب کی حمایت کی ہے۔