وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دیئے گئے ایک بیان پر امریکہ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
عمران خان نے پیر کو صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کی تھی جو منگل کو شائع ہوئی۔ اس گفتگو کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے تجویز دی کہ افغانستان میں اشرف غنی حکومت کی جگہ ایک عبوری حکومت بنائی جائے تاکہ مذاکرات پر تعطل دور ہوسکے۔
انہوں نے موجودہ افغان حکومت کو مذاکرات میں رکاوٹ بھی قرار دیا تھا کیونکہ وہ اصرار کر رہی ہے کہ طالبان امریکہ کے بجائے اس سے مذاکرات کریں۔
عمران خان نے بتایا کہ انہوں نے افغان وفد سے ملاقات اشرف غنی حکومت کی درخواست پر ملتوی کی۔
وزیراعظم کے اس بیان پر احتجاج کرتے ہوئے افغان حکومت نے پاکستان سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ کابل میں پاکستانی نائب سفیر کو افغان دفترخارجہ بھی طلب کیا گیا۔
پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے بھی وزیراعظم کے بیان پر تنقید کی اور کہا کہ افغانستان کا معاملہ افغانوں پر چھوڑ دینا چاہئے۔
تاہم سخت ترین اور کسی حد تک غیرمتوقع ردعمل امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کی طرف سے آیا۔
زلمے خلیل زاد نے کہاکہ پاکستان نے افغان امن عمل میں تعمیری کردار ادا کیا ہے تاہم وزیراعظم عمران خان کا بیان تعمیری نہیں۔ افغانستان کا مستقبل افغانوں کے لیے ہے اور صرف افغان ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی براداری کا کردار افغانوں کو ساتھ بیٹھنے پر آمادہ کرنے کا ہے۔
While #Pakistan has made constructive contributions on the #AfghanPeaceProcess, PM Khan's comments did not. The future of #Afghanistan is for #Afghans, and only Afghans, to decide. The role of the international community is to encourage Afghans to come together so they can do so.
— U.S. Special Representative Thomas West (@US4AfghanPeace) March 26, 2019
زلمے خیل زاد کا بیان اس لحاظ سے غیرمتوقع ہے کہ چند روز قبل خود اشرف غنی کی حکومت نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ کابل انتظامیہ کو طالبان امریکہ مذاکرات سے باہر رکھ رہے ہیں اور افغانستان کے عبوری صدر بننے کے خواہش مند ہیں۔
افغانستان کے اس الزام پر امریکہ نے الزام عائد کرنے والے افغان مشیر سلامتی حمد اللہ محب کو بلا کر احتجاج بھی کیا تھا اور ان سے تعلقات بھی ختم کرلیے تھے۔
زلمے خلیل زاد نے افغان امن عمل کے لے کے ایک نئے دورے کا اعلان بھی کیا ہے۔ انہوں نے منگل کو کہا کہ وہ پاکستان، ازبکستان، اردن اور قطر کے دورے پر روانہ ہوچکے ہیں اور افغانستان میں 40 سالہ جنگ کے خاتمے اور افغانوں کو قریب لانے کیلئے کوششیں تیز کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ افغان طالبان کا واضح مؤقف رہا ہے کہ وہ پہلے صرف امریکہ سے مذاکرات کریں گے اور غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد ہی افغانوں کے درمیان مذاکرات ہوسکتے ہیں۔