بھارتی صدر نے وزیر اعظم کی تجویز پر وزرا کے استعفے منظور کر لیے۔فائل فوٹو
بھارتی صدر نے وزیر اعظم کی تجویز پر وزرا کے استعفے منظور کر لیے۔فائل فوٹو

 بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے برے دن شروع ہو گئے

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے برے دن شروع ہو گئے۔

11 اپریل کو جس پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہوئی، کم از کم اس مرحلے میں بی جے پی کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ اس مرحلے میں 91 سیٹوں پر چناؤ ہوئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ سیٹیں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں تھیں کیونکہ ان دونوں ریاستوں میں ایک ہی مرحلے میں چناؤ ہونے تھے۔ چنانچہ ان دونوں ریاستوں کی کل 42 سیٹوں میں سے ایک بھی سیٹ بی جے پی کے حق میں جاتی نظر نہیں آ رہی

پھر ہندوستان کے سب سے اہم صوبہ اتر پردیش کی آٹھ سیٹوں پر چناؤ ہوئے۔ یہاں دہلی سے ملی ہوئی غازی آبادی سے لے کر مغربی یو پی کی آٹھ سیٹیں شامل ہیں۔ ہمارے رپورٹر جو اس علاقہ میں گھوم رہے تھے، ان کی گراؤنڈ رپورٹ کے مطابق بی جے پی کو یو پی میں اس مرحلے میں ایک یا دو سیٹوں سے زیادہ مل پانا ناممکن ہے۔

اسی طرح مہاراشٹر، بہار، بنگال، کرناٹک اور دوسرے صوبوں سے خبریں ملی ہیں جن سے یہ واضح ہے کہ ہر جگہ یا تو کانگریس پارٹی یا پھر صوبائی پارٹیوں کو بی جے پی پر سبقت حاصل ہے۔

ملک کے کسی بھی حصے میں کسی قسم کی کوئی مودی لہر نہیں یعنی 2014 میں جیسے مودی اپنے نام کو بیچ کر ہندوستان کے بادشاہ بن بیٹھے تھے، وہ اس بار قطعاً ممکن نہیں ۔

پہلے مرحلے سے یہ بھی واضح ہے کہ ملک بھر میں مودی کے خلاف ایک لہر چل رہی ہے جو مودی کی پچھلے پانچ سالوں کی ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔

عوام اور عام ووٹر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی ریفارم سے پیدا ہونے والی مشکلات کو بھولے نہیں ہیں۔ اس کے سبب پیدا ہونے والی بے روزگاری اور تجارت میں نقصان سے پریشان ووٹر مودی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ووٹ دے رہا ہے۔

نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی سب سے بڑی پریشانی کسانوں میں بی جے پی کے خلاف غصہ ہے جو ملک کے ہر صوبہ میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔

اس کے سبب پہلے مرحلے سے ہی یہ ٹرینڈ نظر آ رہا ہے کہ دیہی علاقوں میں بڑی کثیر تعداد میں ووٹر بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈال رہے ہیں۔

ایک بات اور جو بہت صاف نظر آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ بی جے پی مخالف ووٹر بہت سوچ سمجھ کر اپنا ووٹ ڈال رہا ہے۔ یعنی جیسے سنہ 2014 میں مودی مخالف ووٹ مختلف سیکولر پارٹیوں کے بیچ بٹ گیا تھا، اس بار ایسا نہیں ہو رہا ۔

ایک اور انتہائی اہم ٹرینڈ جو اس مرحلے میں ابھرا ہے وہ یہ ہے کہ غریب ووٹر کثیر تعداد میں مودی کے خلاف ووٹ ڈال رہا ہے۔ اس کے برخلاف شہری علاقوں میں آباد مڈل کلاس، پیسے والا اور اعلیٰ ذات کا بڑا طبقہ آج بھی مودی بھکت ہے۔ یعنی اس چناؤ میں غریب اور امیر کی خلیج بھی کافی واضح ہے، جو مودی اور بی جے پی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔

ذاتی اعتبار سے غریب، دلت، زیادہ تر پسماندہ ذاتیں اور مسلمان عموماً ان کو ووٹ ڈال رہے ہیں جو پارٹی بی جے پی کو ہرانے کی حیثیت میں ہے۔

اس سلسلے میں مسلمان، بالخصوص اتر پردیش اور بہار میں بہت دانشمندی سے اسٹرٹیجک ووٹنگ کر رہا ہے۔ یعنی اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ اس کا ووٹ بٹے بغیر محض اسی پارٹی کو جائے جو ان کے علاقے میں بی جے پی کو ہرانے کی حیثیت میں ہے۔

ظاہر ہے کہ ان تمام باتوں سے یہ واضح ہے کہ پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے ہی مودی کے لیے بہت مشکلیں پیدا ہو گئی ہیں۔ راقم الحروف کو اس الیکشن میں مودی مخالف لہر کے آثار صاف نظر آنے شروع ہو چکے ہیں۔