بھارت میں ہونے والے لوک سبھا کے عام انتخابات کے آخری دو مراحل ابھی باقی ہیں۔فائل فوٹو
 بھارت میں ہونے والے لوک سبھا کے عام انتخابات کے آخری دو مراحل ابھی باقی ہیں۔فائل فوٹو

اگر مودی دوبارہ برسر اقتدار آئے تو یہ سانحہ ہوگا۔امریکی جریدہ

امریکی جریدے ٹائمز میگزین نے اپنے نئے شمارے میں وزیر اعظم نریندرا مودی کی تصویر کے ساتھ “انڈیاز ڈیوائیڈر ان چیف” کا ٹائٹل دیتے ہوئے لکھا کہ اگر مودی کی حکومت بن گئی تو یہ سانحہ سے کم نہیں ہوگا۔

بھارت میں ہونے والے لوک سبھا کے عام انتخابات کے آخری دو مراحل ابھی باقی ہیں۔ ان دو مراحل میں کامیابی کے لیے جہاں ایک جانب حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پوری جان ماررہی ہے تو وہیں دوسری جانب ماضی میں ہندوستان کی سیاہ و سفید کی مالک رہنے والی کانگریس بھی پورا زور لگارہی ہے۔

آرٹیکل میں مزید لکھا گیا کہ سیکولر بھارت کی دھجیاں اڑانے کے لیے بی جے پی 5 سال قبل اقتدار میں آئی اور انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤاورتفریق کو بڑھایا اور حالیہ انتخابی مہم کے دوران بھی مودی جی اپنے نعرے ’سب کا ساتھ سب کا ویکاس‘ کی خود دھجیاں اڑا چکے ہیں۔

کالم میں مودی سرکار کی معاشی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارت میں بے روزگاری عروج پر ہے۔ مسلمانوں پر مشتعل انتہا پسندوں کے حملے آئے روز کی بات ہو گئی ہے اور ہندو اقلیت دلتوں کے لیے اپنی ہی ملک کی زمین تنگ ہو گئی ہے۔

آرٹیکل میں مزید کہا گیا کہ ابھی گزشتہ ماہ ہی بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے مسلمانوں کو دیمک کے ساتھ تشبیہ دی۔ 2017 میں اترپردیش کے ریاستی انتخابات جیتنے کے بعد یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاست میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں ایک انتہا پسند یوگی ادیتھیا ناتھ کو وزیر اعلی لگا دیا تھا۔

امریکی جریدے نے بھارت میں بڑھتی نفرت و تعصب کی سیاست پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ 5 سال بھارت میں تعصب کے نام پر مظالم عروج پر رہے تو اگلے 5 برسوں میں بھی بی جے پی کی وجہ سے اقلیتوں پر ان کے اپنے ملک کی زمین مزید تنگ ہو جائے گی۔

بی جے پی کی عام انتخابات میں سیاسی ’مشکلات‘ اس لحاظ سے دیگر کی نسبت زیادہ ہیں کہ اسے گزشتہ پانچ سال کی حکومتی کارکردگی کا ’تخمینہ‘ بھی پیش کرنا ہے جو سیاسی مبصرین کے مطابق کچھ زیادہ اچھا نہیں ۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق جس طرح بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کی سیاسی مشکلات بڑھ رہی ہیں بالکل اسی طرح وزیراعظم نریندر مودی بھی سخت سیاسی دباؤ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔