مرسی کی تدفین مشرقی قاہرہ کے ایک قبرستان میں کی گئی۔فائل فوٹو
کی تدفین مشرقی قاہرہ کے ایک قبرستان میں کی گئی۔

مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو قاہرہ میں سپرد خاک کردیا گیا

مصر کے سابق صدرمحمد مرسکی تدفین مشرقی قاہرہ کے ایک قبرستان میں کی گئی۔

پیر کے دن دوران سماعت کمرہ عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے ساتھ ہی وہ گر کر بے ہوش ہوئے تھے جس کے بعد اسپتال منتقل کرنے سے قبل ہی ان کی ’روح عالم بالا کے لیے پرواز کرگئی تھی۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق مصر کے پبلک پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ نے پوسٹ مارٹم کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ان کی تدفین کی اجازت دی تھی۔ تدفین کے موقع پر غیر معمولی سیکیورٹی تعینات تھی اور سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔

سی این این کے مطابق حکام نے سابق صدر کے جنازے میں عوام کو شرکت کی اجازت نہیں دی البتہ محمد مرسی کے وکیل عبدالمنعم کا کہنا ہے کہ تدفین میں شرکت کی اجازت اہل خانہ اور وکلا کو دی گئی تھی۔

مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی نماز جنازہ میں مصری عوام کو تو شرکت کی اجازت نہیں ملی لیکن عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق مسجد اقصیٰ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ خبررساں اداروں کے مطابق دنیا کے دیگر مقامات پربھی ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔

عرب خبررساں ادارے نے محمد مرسی کی تدفین سے قبل ان کے صاحبزادوں احمد اور عبداللہ کے حوالے سے بتایا تھا کہ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پراطلاع دی تھی کہ انہیں اپنے والد کی تدفین کی بابت کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

سابق مصری صدر محمد مرسی کے صاحبزادوں نے یہ پیغام ان اخباری اطلاعات کے بعد جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مصر کے اعلیٰ حکام نے سابق صدرکی میت کو ان کے خاندانی قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں دی ہے۔

الاخوان نے سابق صدر محمد مرسی کی موت کا ذمہ دار مصرکی حکومت کو قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ  کی چیئرپرسن برائے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سارہ لیا ویٹسن نے بھی سابق صدر کی موت کا ذمہ دار مصر کی حکومت کو قرار دیا ہے۔

انہوں نے سابق صدر کی موت پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں کہا تھا کہ مصر کی حکومت نے ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی اور صحت کے حوالے سے لاپرواہی برتی گئی۔

سرکاری ٹی وی کے مطابق 67 سالہ محمد مرسی کی موت گزشتہ روز حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی جب کہ دائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے گروپس نے محمد مرسی کی حراست میں موت کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ مصر میں حسنی مبارک کی 30 سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد محمد مرسی ملک کے پہلے سویلین صدر منتخب ہوئے تھے۔

اقتدار پر تقریباً ایک سال رہنے کے بعد 3 جولائی 2013 کو آرمی چیف عبدالفتح السیسی نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹا جس کے بعد صدر سمیت اخوان المسلمین کے سیکڑوں کارکنان کو جیلوں میں ڈال کر ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔

سابق صدر محمد مرسی پر دہشت گرد تنظیموں اور عالمی طاقتوں سے رابطوں کا الزام تھا جس پر انہیں سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔