احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملزمیں منی لانڈرنگ سے متعلق کیس میں نوازشریف کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا اورانہیں 25 اکتوبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے نیب کی تحویل میں دے دیا۔
احتساب عدالت کے جج امیر محمد خان کی عدالت میں چوہدری شوگر ملز کیس کی سماعت ہوئی جس دوران نیب نے نوازشریف کو کوٹ لکھپت جیل سے حراست میں لے کر پیش کیا اور جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے منظورکرلیا۔
نیب پراسکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2016 میں نوازشریف شیئر ہولڈ ر پائے گئے ، نوازشریف چوہدری شوگر ملز میں شیئر ہولڈر تھے ، 1992 میں چودھری شوگرملزقائم کی گئی، نوازشریف 1992 میں 43 ملین شیئرزکے مالک تھے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ چوہدری شوگرملزمیں مریم نواز،شہبازشریف ودیگرشیئرزہولڈرتھے،1992 میں اتنے شیئرزکہاں سے آئے؟ نوازشریف نے نہیں بتایا، نوازشریف کو 1992 میں غیرملکی کمپنی نے رقم فراہم کی، غیرملکی کمپنی نے نوازشریف کوایک کروڑ 55 لاکھ روپے دیئے۔
نیب نے کہا کہ شریف فیملی نے چودھری اورشمیم شوگرملزمیں 2 ہزارملین سرمایہ کاری کی، نوازشریف نے 2010میں 410 ملین شیئرز غیر ملکیوں نے نام منتقل کیے۔
جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نوازشریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کاچوہدری شوگرملزکے قیام میں کوئی کردارنہیں، محمد شریف نے چوہدری شوگر ملز قائم کی، نوازشریف کے علاوہ تمام بچے ڈائریکٹراورحصے دارتھے، نوازشریف ڈائریکٹراورشیئرزہولڈرکبھی نہیں رہے،30 سال سے نوازشریف اثاثے ظاہرکرتے آئے ہیں،
نوازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کے اثاثوں کی چھان بین پہلی بارنہیں ہورہی،ان کے تمام اثاثے قانون کے مطابق ہیں ،پنامالیکس کی کمیٹی نے بھی تمام تحقیقات کیں، نوازشریف پر سیاسی کیس بنائے گئے، پنامالیکس پرکمیٹی نے نیب کو 3 ریفرنس دائرکرنےکاکہا،تینوں ریفرنس میں چوoدری شوگرملزشامل نہیں تھی.
نواز شریف کے وکیل نے کہاکہ پناماجے آئی ٹی تحقیقات کے بعد نواز شریف کو سزا ہو چکی ہے ،چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتاری کا جواز نہیں بنتا ، ج آئی ٹی کونوازشریف کے اثاثوں کی تحقیقات کااختیاردیاگیا، وکیل نے کہا کہ نوازشریف 1991 میں کسی کمپنی کے سپانسریامالک نہیں رہے۔