بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے زمین ہندوﺅں کو دینے اورمسلمانوں کو مسجد کیلیے متبادل پانچ ایکڑ زمین فراہم کرنے کا حکم جاری کردیا تاہم یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پانچ رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے چیف جسٹس رنجن گوگوئی 17 نومبر کوعہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ سنایا، بھارتی سپریم کورٹ نے الہٰ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنایا۔
1992میں بابری مسجد کو شہید کیے جانے سے قبل کی تصویر
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن جگکوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بین بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنا دیا،6 دسمبر 1992 میں بھارتی انتہا پسند ہندووں نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا ، سپریم کورٹ کے جسٹس نذیر واحد مسلمان جج ہیں۔
ہائیکورٹ نے فیصلہ فیصلہ سنایا تھا کہ ایودھیا کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے جس میں سے ایک حصہ نرموہی اکھاڑے ، ایک حصہ رام مندر اور تیسرا حصہ سنی وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔جس کے خلاف سپریم کورٹ میں 14 اپیلیں دائرکی گئی تھیں۔
فیصلہ سنائے جانے کے موقع پربھارتی سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا پرسن اورصحافیوں کاہجوم
بھارتی سپریم کورٹ نے 16 اکتوبر کو سماعت مکمل کرتے ہوئے آج 9 نومبر کو فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا۔بھارت میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے رام مندر کی تعمیر کیلیے بورڈ تشکیل دینے کا حکم بھی جاری کردیا جو تین ماہ میں رپورٹ پیش کرے گا۔
بھارتی سپریم کورٹ کا کہناتھا کہ متنازع زمین کی تقسیم کافیصلہ غلط تھا، رام مندرتعمیرکیاجا ئے گا بابری مسجدکی زمین حکومت کے پاس رہے گی ، مسلمانوں کومسجدکیلیے 5 ایکڑزمین دی جائےگی۔بھارتی عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں مرکزی حکومت کو3ماہ میں ٹرسٹ قائم کرنے کا حکم بھی دے دیاہے۔
بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ 1949ءمیں بابری مسجد گرانا بت رکھنا غیرقانونی ہے، مسلمانوں کے بابری مسجد کے اندرونی حصوں میں نماز پڑھنے کے شواہد ملے ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد کو خالی پلاٹ پرتعمیرنہیں کیا گیا،بابری مسجد کے نیچے تعمیرات موجود تھیں جو اسلامی نہیں تھیں، تاریخی شواہد کے مطابق ایودھیا رام کی جنم بھومی ہے۔سنی وقف بورڈ جگہ پر قبضہ کرنے کا دعویٰ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
بھارت بھر میں سیکیورٹی سخت
بھارتی میڈیا کے مطابق اتر پردیش میں تمام اسکول، کالج اور تعلیمی ادارے 11 نومبر تک بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور ایودھیا سمیت پورے بھارت میں سیکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔
سنی وقف بورڈ نے بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا
وکیل سنی وقف بورڈ ظفریاب جیلانی نے بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں، 5 ایکڑ زمین ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی،بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں تضاد ہے۔
وکیل سنی وقف بورڈ ظفریاب جیلانی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں،5ایکڑزمین ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی،بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں تضاد ہے،شریعت کے مطابق ہم اپنی مسجد کسی کو نہیں دے سکتے،ہمارا موقف نہیں سمجھا گیا ہمیں متبادل زمین نہیں چاہیے۔
وکیل نے کہاکہ عدالتی فیصلے کے فیصلے کی عزت کرتے ہیں، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کر سکتے ہیں،اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ مشاورت سے کیا جائے گا۔
بابری مسجد کا پس منظر
1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔
برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کیلئے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔
1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا۔
حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کیلئے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔