تھائی لینڈ میں بڑے پیمانے پر پاکستانی پٹھان بسے ہوئے ہیں جن کی اب چوتھی اور پانچویں نسل چل پڑی ہے جنہیں تھائی پٹھان بھی کہا جاتاہے جبکہ کچھ لوگوں نے تو تھائی لینڈ کو”منی پختونخوا “ کہنا شروع کر دیاہے کیونکہ وہاں پر بسنے والے تھائی پٹھانوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوزکرگئی ہے۔
چلیں آج آپ کو بتاتے ہیں یہ پٹھان کون ہیں اور کس طرح وہاں جا بسے جس کے بعد انہیں تھائی پٹھان کہا جانے لگا ،یہ دراصل وہ پاکستانی ہیں جو دہائیوں سے تھائی لینڈ کے ہو کر رہ گئے جس کے باعث انہیں تھائی پٹھان کہا جاتاہے لیکن وہ اپنی روایات اور ثقافت کو نہیں بھولے، اپنے نام کے ساتھ وہ اب بھی پٹھان لکھتے ہیں ۔
تھائی لینڈ میں جا بسنے والے پٹھانوں نے یہ ڈیرہ دراصل تلاش رزق کی جدو جہد میں لگایا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نام اور پیسہ خوب کمایا ، ان کے اگلی پیڑیاں اپنی آبائی زبان تو بھول گئے لیکن روایات آج بھی ان کے خون میں کسی طوفان کی طرح دوڑتی ہیں جنہیں وہ سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔
تھائی لینڈ میں جا بسنے والے پٹھانوں کی اب چوتھی اور پانچویں نسل چل پڑی ہے جبکہ ان کی تعداد تقریبا پانچ لاکھ سے بھی اوپرجا چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اسے منی پختون خواہ بھی کہنا شروع کر دیاہے ۔
یہ پٹھان کس طرح تھائی لینڈ آکر بسے اورانہوں نے اپنی نسل چلائی ۔خاتون نے بتایا کہ اس کے والد کے چچا یہاں آ کر بسے اور انہوں نے تھائی خاتون سے شادی کی جس کے بعد ان کے بچے ہوئے اور ان میں سے ایک ان کا شوہر ہے۔
انہوں نے بتایا اب تھائی پٹھانوں کی چوتھی نسل تھائی تو فرفر بولتی ہے لیکن پشتو بھول چکی ہے ، زبان میں تو کچے ہیں لیکن روایتی ڈیرہ نظام آج بھی پکا ہے اور قائم رکھا ہواہے ۔
تھائی لینڈ میں رہنے والے پٹھانوں نے گوشت کے کاروبار کو اپنا ذریعہ معاش بنایا اور دولت کے ساتھ ساتھ عزت اور نام بھی کمایا ۔ تھائی پٹھانوں کی چوتھی نسل تھائی فرفر بولتی ہے لیکن پشتو بھول گئی ہے لیکن گھروں میں آج بھی ہاتھ سے بن ہوئی چارپائیاں استعمال کی جاتی ہیں اور بیٹھک کا نظام بھی برقرار رکھا ہواہے جو کہ ایسے ممالک میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔