خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیاہے جس میں جسٹس سیٹھ وقاراورجسٹس شاہد فضل کریم اکثیریتی فیصلہ سناتے ہوئے سزا موت دی ہے جبکہ جسٹس نذرنے سزا سے اختلاف کیا۔
نجی ٹی وی کے دعویٰ کیاہے کہ جسٹس نذراکبرنے سابق صدر پرویز مشرف کو بری کردیا تھا جبکہ اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہاہے۔
فیصلے میں کہاگیا ہے کہ پرویز مشرف کو دفاع کا موقع دیا گیا،جمع کرائی گئی دستاویزات میں واضح ہے ملزم نے جرم کیا،ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں،فیصلے میں مزید کہاگیا ہے کہ ملزم کو ہرالزام پرعلیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے ۔
جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس شاہد فضل کریم نے پرویز مشر ف کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی ہے اور فیصلے میں لکھاہے کہ اگر پرویز مشرف پھانسی سے قبل فوت ہو جاتے ہیں توان کی لاش کو گھسیٹ کرلایا جائے اور تین دن تک ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ مشرف کو مفرورکرانے والے افراد کو قانون کے دائرے میں لایا جائے ،ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوئے ہیں۔عدالت نے سیکیورٹی اداروں کو پرویز مشرف کی پھانسی پرہرصور ت عملدرآمد کروانے کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیاگیا ہے اس کے علاوہ فیصلے میں کہاگیا ہے کہ پرویز مشرف کو مفرور کرانے میں ملوث افراد کوقانون کے دائرے میں لایا جائے ،مفرورکرانیوالوں کے کریمنل اقدام کی تفتیش کی جائے ۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ 169 صفحات پر مشتمل ہے اور کاپی حاصل کر نے کے بعد مشرف کے وکیل رضا بشیر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قانونی ٹیم فیصلے کو دیکھ رہی ہے ، یہ فیصلہ پاکستانی کی تاریخ میں ایک سوالیہ نشان ہے، جس میں انہیں فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا، فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
پس منظر
3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو گھروں میں نظربند کردیا تھا۔
آرٹیکل 6
پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے ’سنگین بغاوت‘ کا جرم ہے جس کی سزا پھانسی ہے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کیلیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے16نومبر2013 کو رپورٹ جمع کرائی،
لاڈویژن کی مشاورت کے بعد13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا بتایا گیا۔
پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ6سال سے زائد چلا۔وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔ خصوصی عدالت کی متعدد دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اورجسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججزنے مقدمہ سنا۔