سنگین غداری کیس سننے والے تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ سنگین غداری کا جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے جس سے جسٹس نذراکبر نے اختلاف کیا ہے۔
انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ نومبر 2007 کا اقدام غیر قانونی ہوسکتا ہے لیکن سنگین غداری کا جرم ثابت نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سنگین غداری کے لفظ کی آئین میں کوئی تشریح نہیں، جب تک اس لفظ کی تشریح نہ ہو عدالت منصفانہ فیصلہ جاری نہیں کر سکتی۔انہوں نے بتایا کہ میرے ساتھی ججزنے سنگین غداری کی تشریح آکسفورڈ ڈکشنری کی اصتلاح کے مطابق کی ہے۔
جسٹس نذراکبرنے لکھا ہے کہ پرویز مشرف ججزنظربندی کیس میں پہلے ہی ایک کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس نذراکبرنے44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ مختلف عوامل اس کیس میں شامل تھے۔
ختلافی نوٹ میں درج ہے کہ پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی نافذ کرنے کے وقت ان کے ساتھ موجود دیگرافراد کو اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا۔
جسٹس نذراکبرنے لکھا کہ ججز بحالی کیسی ہوئی، کس کا ٹیلی فون اعتزاز احسن کو آیا، ججز بحالی کا اعلان ہونے کے پانچ دن بعد انہیں بحال کیا گیا اور ایسے بہت سے سوالات کیس میں موجود ہیں۔