برازیل میں کورونا کیسز کی صورتحال ابتر ہونے کے سبب ملک گیر لاک ڈاؤن کا مطالبہ زورپکڑنے لگا، جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا بھی دوبارہ لاک ڈاؤن کا انتباہ
برازیل میں کورونا کیسز کی صورتحال ابتر ہونے کے سبب ملک گیر لاک ڈاؤن کا مطالبہ زورپکڑنے لگا، جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا بھی دوبارہ لاک ڈاؤن کا انتباہ

ستاروں پرکمند ڈالنے والا انسان بے بس

ستاروں پرکمند ڈالنے والاانسان چاہے جتنی بھی ترقی کرلے وہ اپنے رب کے اختیارکا مالک نہیں بن سکتا بلکہ خدا کے سامنے اس کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ ایک معمولی وائرس کا مقابلہ بھی نہیں کرپا رہا حالانکہ اس کا دعویٰ تو یہ ہے کہ زمین وآسمان کی ہر چیزاس کی دسترس میں ہے۔

اس وائرس نے یہ پیغام دیا ہے کہ انسان بے بس و کمزور ہے،سائنس وٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی کے باوجود انسان ابھی تک موت اور زندگی کے خاتمے کو روکنے میں ناکام ہے اگرچہ وہ ازل سے اس کوشش میں ہے کہ زندگی کو دوام بخشے،یہ کوششیں بھی ہو رپہی ہیں کہ زندگی کو طوالت دی جائے لیکن اس کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی شاید انسان کا ہمیشہ زندہ رہنے کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

صرف خدا ہی سپر پاور ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے اس نے تو ثابت کر دیا کہ سائنس جتنی مرضی ترقی کر جائے،اس کے سامنے وہ بے بس ہے ،قرآن نے تو اس کا ان الفاظ میں فیصلہ کر دیا ہے کہ ہر چیزکو فنا ہونا ہے سوائے اللہ کی ذات کے۔

انسان کتنا بے بس،لاچار اور مجبور ہےاس کے نظارے وبائی مرض’’کرونا وائرس‘‘ کے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد جگہ جگہ نظر آرہے ہیں۔

اس کے سامنے تمام سائنسی ترقی ڈھیر ہوچکی ہے۔ملکوں ملکوں موت کا خوف منڈلا رہاہے۔ لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ سڑکیں بازار، ہر طرح کے سیاحتی مقام ویرانی کے منظر پیش کررہے ہیں۔

تمام ممالک ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہورہے ہیں۔زمینی وفضائی نقل وحمل کے راستے منقطع ہورہے ہیں۔ ڈر اور خوف کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے حکمران اپنے محلوں میں مقید ہورہے ہیں۔

ایک سپر پاور کے حکمران کرونا وائرس کی ویکسین کے لیے دوسرے ملک کی دواساز کمپنی کی منتیں کررہے ہیں۔

شہروں، ملکوں کو لاک ڈاؤن کرنے کا نظارہ دیکھنے والے ہرطبقہ فکرکے افراد یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ ’’ہوکیا رہا ہے‘‘

جب تک انسان اس حقیقت کو جھٹلاتا رہے گا،اپنی ذات کی حقیقت سے منہ چھپاتا پھرے گا وہ اسی بے بسی کا شکار رہے گا لیکن جس دن وہ یہ تسلیم کرلے گا کہ دنیا میں ایک پتہ بھی اللہ کے حکم کے بغیرحرکت نہیں کرتا اوروہ اپنی زندگی کا مالک خود نہیں بلکہ خدا ہے۔

اس کی کامیابی و ناکامی بھی خدا کے فیصلے کے ما تحت ہے وہ اس زمین پر خدا کا مہمان ہے جب تک وہ خود کو مالک کی بجائے مہمان سمجھے گا اس کا خیال رکھا جائے گا لیکن جیسے ہی وہ مالک بننے کی کوشش کرے گا اسے اس کی اوقات یاد دلائی جاتی رہےگی۔

جب سے دنیا کا یہ مہمان مالک بننے کی کوشش کر رہا ہے اسی وقت سے مسائل اس کا پیچھا کر رہے ہیں، ہر بار وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کرنکل بھاگتا ہے،اس بار وہ مکمل طور پربے بس دکھائی دے رہا ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے ہزاروں کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں، ہوائی سفر سے لے کر زمینی سفر تک سب کچھ بند ہے۔

دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے اوزن کی تہہ ٹھیک ہو رہی ہے جس میں فضائی الودگی کی وجہ سے سراخ ہوگیا تھا، اگر اس کا سراخ اور بڑھتا رہتا تو زمین پر انسانوں کا رہنا مشکل ہو جاتا۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے دریا و سمندرکا پانی صاف ہو رہا ہے، ماحولیات میں بہت کچھ بدل رہا ہے، ہوا میں زہریلے مادوں کی دن بدن کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہونے سے بچ گئی ہیں۔