اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو

ریفرنس ٹھیک نہیں بناتوحکومت کااحتساب ہوسکتاہے۔سپریم کورٹ

جسٹس قاضی فائزکیخلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی رکوانے کیلیے درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ ججزقابل احتساب ہیں توحکومت بھی قابل احتساب ہے،اس نتیجے پرپہنچے کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بناتوحکومت کااحتساب ہوسکتاہے۔بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ بالکل وزیرقانون،وزیراعظم،صدرمملکت سب قابل احتساب ہیں،جائیدادیں جج کی اہلیہ کی ہیں،لگتاہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزکیخلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی رکوانے کیلیے درخواستوں پر سماعت کی،جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ  نےسماعت کی ۔

دوران سماعت عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کو جواب جمع کرنے کی اجازت دی جس پر انہوں نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کرایا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ شوکازاہم ہے،آپ اس پرانحصار کررہے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ججزقابل احتساب ہیں توحکومت بھی قابل احتساب ہے،اس نتیجے پرپہنچے کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بناتوحکومت کااحتساب ہوسکتاہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ بالکل وزیرقانون،وزیراعظم،صدرمملکت سب قابل احتساب ہیں،جائیدادیں جج کی اہلیہ کی ہیں،لگتاہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔

عدالت نے بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیاکہ دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لیں گے؟۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ذہن میں رکھیں کہ عدالت کونسل اختیارات سے آگاہ ہے،ایک جج کو عمومی باتوں سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا، آپ کااصل سوال جائیداد کی خریداری کے ذرائع کا ہے،آپ کے تمام الزامات میں کرپشن اوربدیانتی کی بات نہیں۔

عدالت نے کہاکہ پاکستان اورسپریم کورٹ بارسمیت تمام بارزجج کے دفاع میں آئی ہیں،جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ بارکونسل کے مطابق جج پرکرپشن کا کوئی الزام نہیں،جج بھی قابل احتساب ہیں، وہ شیشے کے گھرمیں رہتے ہیں،جج صاحب کہتے ہیں جائیدادوں سے متعلق اہلیہ سے پوچھاجائے، ذہن میں رکھیں مسئلے کا حل کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس سے متعلق سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہاکہ ثابت کریں اہلیہ کو جائیداد خریدنے کیلیے جج نے پیسے دیے۔

حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن نقائص پر مبنی درخواست پر کارروائی کر سکتا ہے،عدالت نے استفسار کیاکہ یہ بتائیں کونسل کے سامنے جج کیخلاف آمدن سے زائد ذرائع کا مواد کیا تھا؟،حکومتی وکیل نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز نے 09-2008 میں بطوروکیل آمدن ظاہر کی،عدالت نے کہاکہ ثابت کریں اہلیہ کو جائیداد خریدنے کیلیے جج نے پیسے دیے۔

فروغ نسیم نے کہاکہ میں آپ کابہت احترام کرتا ہوں ،15 سال کاہمارا عزت واحترام کارشتہ ہے،جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ احترام کا رشتہ برقرار رہے گا،سب چاہتے ہیں کیس کاجلد فیصلہ ہو،فروغ نسیم نے کہاکہ وضاحت دینی ہے جائیدادیں کیسے خریدی گئیں،آج کے دن تک اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہوسکتا ہے فاضل جج کی اہلیہ زیرکفالت ہو،اہلیہ کواپنے والدین سے کچھ ملے،کیاوہ بتانابھی خاوندکی ذمے داری ہے؟

جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ کسی عمارت کی بنیادغلط ہوتوغلط ڈھانچے پرعمارت کھڑی نہیں ہوسکتی،فروغ نسیم نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو اس کا تعین کس فورم پرہوگا؟،حکومتی وکیل نے کہاکہ سروس آف پاکستان کے تحت یہ جواب خاوند نے دینا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپ کا مقدمہ پراپرٹیزکی ملکیت سے متعلق ہے،کسی کے رہنے سہنے کے انداز کا مقدمہ آپ کا نہیں ،ریفرنس میں منی لانڈرنگ،فارن ایکس چینج کی منتقلی کی بات کی گئی۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ صدارتی ریفرنس کے الزامات کا جائزہ جوڈیشل کونسل نے لینا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کون ساریکارڈ ہے جس سے اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ لگتے ہیں؟،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ 1990کے بعدایسامیکانزم بنایاگیاجس کے تحت کوئی حساب نہیں ۔

حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کے سامنے مس کنڈکٹ پردلائل دوں گا، اہلیہ معزز جج کی فیملی کا حصہ ہے اور آئین کے آرٹیکل 63 میں اہلیہ کے زیرکفالت کے حوالے سےکوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔

انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ برطانیہ میں اہلیہ کی جانب سے بار کو خط لکھنے پر جج کے خلاف کارروائی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین غیر جانبدار ہے، آرٹیکل 209 میں اہلیہ کو زیر کفالت یا خود کفیل رکھنا بلا جواز ہے، کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے، آئین کے آرٹیکل 63 کےتحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سےمحروم ہوجاتا ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہا کہ جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب کیا آپ کا یہی مقدمہ ہے، جو دلائل آپ دے رہے ہیں یہ آپ کا مقدمہ نہیں ۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ یہ تھا کہ مواد کونسل کے سامنے آنے کے بعد باقی چیزوں کی اہمیت نہیں رہی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ افتخارچوہدری کیس کا اطلاق موجودہ مقدمے پرنہیں ہوتا، جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آنے والے مواد پر از خود کارروائی کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن نقائص پر مبنی درخواست پر کارروائی کرسکتا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کونسل کے سامنے جج کے خلاف آمدن سے زائد ذرائع کا مواد کیا تھا؟

انہوں نے کہا کہ کیا ایف بی آر پوچھے اوراہلیہ جواب دے تو کیس ختم ہو جائے گا، جس پر منصور علی شاہ نے کہا کہ پھراس بات پر اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ جواب قاضی فائز عیسیٰ ہی دیں، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جج کے خلاف ڈسپلنری کارروائی کونسل ہی کر سکتی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس مقدمے میں 9 ماہ گزر چکے ہیں۔

فروغ نسیم نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ  پبلک سروس آف پاکستان کے ملازم کے بچے لگژری گاڑی چلائیں، اگر1969 کا قانون اتنا برا تھا تو اٹھارہویں ترمیم میں پارلیمنٹ ختم کر دیتی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہمارے ملک میں 1990کے بعد ایسا میکنزم بنایا گیا جس کےتحت کوئی حساب نہیں ہے، الزام یہ ہے کہ لندن کی جائیدادیں کیسے خریدی گئیں؟ آرٹیکل 10 اے پر بھی مطمئن کریں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ اگرایف بی آرکہہ دے کہ اہلیہ نے جائیدادیں اپنے وسائل سے حاصل کیں تو پھر صورتحال کیا ہوگی۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ صدارتی ریفرنس میں تشویش جائیداد خریدنے کے ذرائع سے متعلق ہے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ اگر تسلیم کرلیں تو پھر تمام ججز سے ٹیکس کا جوڈیشل کونسل پوچھے گی، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل جج کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے سکتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر ایف بی آر کہہ دے کہ اہلیہ نے جائیدادیں اپنے وسائل سے حاصل کی ہیں تو پھرصورتحال کیا ہو گی۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون کے آرٹیکل 116 کی خلاف ورزی کا ہے، آپ تو ٹیکس قانون کے ماسٹر ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ہمارا مرکزی مقدمہ ہے کہ کن وسائل سے یہ جائیدادیں خریدی گئیں، آرٹیکل 116 کی خلاف ورزی ایک چھوٹا سا نکتہ ہے۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ حکومتی وکیل ٹائم لائن دے دیں کب تک دلائل مکمل کریں گے۔

جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک جج پر سوال اٹھے تو پورے ادارے پر سوال اٹھتے ہیں۔

فروغ نسیم نے کہا کہ بھارت میں 6 لاکھ کی وضاحت نہ کرنے پر جج کو گھر بھیج دیا گیا، اسی مقدمے کی بنیاد پر بھارت میں عدالتی تاریخ رقم ہوئی، بھارت میں جج کےخلاف فوجداری کارروائی کو الگ رکھا گیا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ بھارت میں جج کے خلاف کارروائی کے وقت مکمل مواد پیش کیا گیا جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا جج صاحب ایف بی آر سے اپنی اہلیہ کاٹیکس ریکارڈ لے سکتے ہیں؟

جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ ایف بی آر راز داری کی وجہ سے جج صاحب کو اہلیہ کا ریکارڈنہیں دے تو جج انضباطی کارروائی کا سامنا کیسےکرے گا؟

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایف بی آر خاوند کو اہلیہ کے گوشوارے یا ٹیکس معلومات دینے سے انکارکر دے تو پھر راستہ کیا ہو گا؟

فروغ نسیم نے کہا کہ میں اس سوال کا تفصیلی جواب دوں گا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی سوال کا جواب دے دیں، فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مجھے متعلقہ قوانین کو دیکھنا ہوگا پھر جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گا۔

شہزاد اکبرنے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائزعیسی کی جانب سے ان کے وکیل منیراے ملک نے حکومتی موقف پراپنا جواب جمع کرایا جس میں جسٹس قاضی فائزعیسی نے حکومت کی جانب سے فیملی کی جائیدادوں کو مختلف ویب سائیٹس کے ذریعے ڈھونڈنے کے موقف کی تردید کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے تحریری جواب میں کہا ہے کہ حکومت نے میرے اہلخانہ کی جاسوسی کرکے جائیدادوں کی معلومات حاصل کیں، شہزاد اکبر اور ضیا المصطفی نے عدالت کو اپنے پہلے موقف کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے عدالت کو گمراہ کرنے پر معافی مانگنے کی بجائے 14 ماہ بعد ایک نیا موقف اپنا لیا، فریقین کی جانب سے نیا موقف یکم جون اور چھ جون کو جمع کروائے گئے دستاویزات میں اپنایا گیا۔ نئے موقف کے مطابق میرے اہلخانہ کی جائیدادیں مختلف ویب سائٹس کے ذریعے تلاش کی گئیں۔

فاضل جج نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ عدالت میں ثابت کرچکا ہوں کہ درخواست گزار وحید ڈوگر کو میرے اہلخانہ کے درست نام تک نہیں معلوم اور درست نام کے اندراج کے بغیر جائداد کی تلاش نہیں کی جا سکتی، جائیدادیں درحقیقت جاسوسی کے ذریعے ڈھونڈی گئیں۔ جائیدادوں اور ان کی ملکیت کی تلاش عام ویب سائیٹس سے ممکن نہیں، اس کے لیے مالی ادائیگیوں سمیت مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت نے جائیدادوں کو سرچ انجن کے ذریعے تلاش کیا ہے تو اس کے دستاویزی شواہد فراہم کیے جائیں، حکومت سرچ انجن کو ادائیگی کی تفصیلات فراہم کرے۔