اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس میں سلائی مشینوں کے کاروبارکا ذکر

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس دوران سلائی مشینوں کے کاروبار کا تذکرہ سننے کو ملا ۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کی۔، سماعت کے دوران فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کونسل کے پوچھنے پر جج کے جواب دینے سے عدلیہ کا اعتماد بڑھے گا، خود کفیل اہلیہ پرسول سرونٹ جوابدہ نہیں اس لیے قانون میں تفریق پیدا کرنی پڑے گی،باقی سول ملازمین تو اہلیہ کی جائیداد کی وضاحت دیں،ایک سول سرونٹ کہتا ہے میں اہلیہ کی جائیداد پر جواب نہیں دوں گا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کونسل جج کی اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے، جج کی اہلیہ بتا دے کہ سلائی مشین کی آمدن سے جائدادیں خریدی ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے،اہلیہ آکر بتا دیں پیسہ کہاں سے آیا، پیسہ باہرکیسے گیا۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ فروغ نسیم کافی ہوگیا،میں تقاضا کروں گا ایسی مثالیں نہ دیں جو توہین آمیز ہوں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزار فائز عیسیٰ نے بدنیتی اور غیر قانونی طریقے سے شواہد اکٹھے کرنے کا الزام لگایا ہے، ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں، عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پر کیس خارج ہو جاتا ہے، اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک ریفرنس میں کئی خامیاں موجود ہیں، لندن کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے، مقدمے میں سوال جائیداد کی خریداری کا ہے، درخواست گزار فائز عیسیٰ نے جائیدادوں کے وسائل خریداری بتانے سے بھی انکار نہیں کیا، یہ ہوسکتا ہے پہلے ایف بی آر کو معاملے پر فیصلہ کرنے دیا جائے، وہاں پر فیصلہ اہلیہ کے خلاف آتا ہے تو پھر جوڈیشل کونسل میں چلا جائے، ہو سکتا ہے کہ انکم ٹیکس کہہ دے کہ ذرائع درست ہیں، ہو سکتا ہے ٹیکس اتھارٹی کے فیصلے سے جوڈیشل کونسل اتفاق کرے نہ کرے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے تو ٹائم فریم کیا ہوگا، ایف بی آر پر معاملہ چھوڑ دیا جائے تو ٹیکس اتھارٹی کو کتنا وقت دیا جائے گا، مجھے وزیراعظم اور صدر مملکت سے مشاورت کے لیے وقت دیں۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ایف بی آر کو کہہ دیں گے کہ چھٹیوں میں معاملے پر فیصلہ کردیں، آپ پہلے ایف بی آر کے معاملے پر ہدایات وزیراعظم یا صدر سے لے لیں، اگر ہدایات منفی میں آتی ہیں تو دلائل دیں۔

جسٹس مقبول باقرنے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا جج اہلیہ کی جائیدادوں پر جواب دہ ہیں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ یہ سوال نہیں آرٹیکل 209 بڑی سنجیدہ کارروائی ہے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں ریمارکس دیے کہ  ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں اور عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پرکیس خارج ہوجاتا ہے لہٰذا ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہوسکتا ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس عمرعطا نے ریمارکس دیے کہ ہم ججز کے احتساب سے متفق ہیں، درخواستگزار نے بدنیتی اورغیرقانونی طریقے سے شواہد اکٹھےکرنےکا الزام لگایا ہے،  ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں اور عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پرکیس خارج ہوجاتا ہے لہٰذا ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہوسکتا ہے۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ابھی تک ریفرنس میں کئی خامیاں موجود ہیں، لندن کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے، مقدمے میں سوال جائیداد کی خریداری کا ہے اور درخواستگزار نے جائیدادوں کے وسائل خریداری بتانے سے بھی انکار نہیں کیا، درخواستگزار چاہتا ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

حکومتی وکیل نے وزیراعظم اور صدر سے مشاورت کیلیے وقت مانگ لیا،حکومتی وکیل نے وزیراعظم اور صدر سے مشاورت کے لیے وقت مانگا جس پر بینچ کے سربراہ نے انہیں دلائل دینے کی ہدایت کی۔

فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ سروس آف پاکستان کے تحت کوئی اہلیہ کی پراپرٹیزکا جواب دینے سے انکار نہیں کرسکتا،اس پر جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ اگر سرکاری ملازم اپنی اہلیہ سے معلومات لینے سے قاصر ہو تو پھر ایسی صورت میں کیا ہوگا؟ اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سرکاری ملازم اگر اہلیہ کا بہانا بنائے تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا، جج نے نہیں کہا میری اہلیہ مجھے معلومات فراہم نہیں کر رہی، پبلک سرونٹ سے اثاثوں کی تفصیل مانگی جائےتو وہ انکم ٹیکس کا عذرپیش نہیں کرسکتا، پبلک سرونٹ کے پوچھنے پر اہلیہ سے پوچھ کرانضباطی کارروائی کا جواب دینا ہوگا، اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ حکومت نے نہیں مانگا، ایف بی آرسے ٹیکس کا ریکارڈ جوڈیشل کونسل نے منگوایا، میں اگر بطور رکن پارلیمنٹ اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیل نہ بتاؤں تو نااہل ہوجاؤگا۔

جسٹس عمرعطا نے کہا کہ لمبی بات نہ کریں وقت تھوڑا ہے، آپ انکم ٹیکس قانون کا سیکشن 216 پڑھیں۔

جسٹس منصورنے پوچھا کہ کیا خاوند ایف بی آر سے براہ راست اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ مانگ سکتا ہے، اس پرفروغ نسیم نے کہا کہ میرے خیال سے خاوند ریکارڈ مانگ سکتا ہے، معزز جج نے کہا کہ خیال نہیں، آپ قانون سے بتائیں، اہلیہ معلومات دینے سے انکارکرے تو ایسی صورت میں خاوند ٹیکس ریکارڈ کیسے حاصل کرے گا۔

جسٹس عمرعطا نے استفسار کیا کہ ایسیٹ ریکوری یونٹ کیا ہے؟ معلومات کیسے حاصل کی گئیں؟ آپ پہلےایف بی آرکے معاملے پرہدایات وزیراعظم یا صدر سے لے لیں۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ اس کارروائی میں صدر کے خلاف بدنیتی کا الزام نہیں، صدرمملکت کے پاس بھی انکوائری کا اختیار نہیں، ریفرنس میں کرپشن کا کوئی مواد نہیں، صدر مملکت کا اپنی رائے بنانا آئینی رائے ہے، افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کا سارا کام ایک دن میں ہوا تھا، ایک دن میں ریفرنس بنا اور کونسل بھی بن گئی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ہمارے پاس یہ معلومات آئی کہ جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع نہیں، حکومت نے وہ معلومات جوڈیشل کونسل کو بھیج دیں اور یہ درست نہیں کہ صدر مملکت کے سامنے کوئی ریکارڈ نہیں تھا، ریفرنس کا جائزہ لے کر کونسل نے شوکاز جاری کیا۔

جسٹس منصور نے کہا کہ شوکاز نوٹس کی عدالت پابند نہیں ، سوال یہ ہےکہ اہلیہ سے پوچھے بغیر جج سے ذرائع پوچھ لیےگئے، قانون دکھا دیں کہ جج اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دینے کے پابند ہیں، اگرصدرمملکت ایگزیکٹوکی توسیع ہے توصدرکو ریفرنس پر رائے بنانےکی کیا ضرورت ہے۔