جعلی وزیراعظم کو اندازہ نہیں کہ ان کی اپنی مقبولیت بھی منفی ہوچکی ہے،فائل فوٹو
جعلی وزیراعظم کو اندازہ نہیں کہ ان کی اپنی مقبولیت بھی منفی ہوچکی ہے،فائل فوٹو

بی این پی کا فیصلہ دیگر اتحادیوں کیلیے قابل تقلید ہے۔ فضل الرحمن

سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی سردار اختر مینگل نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق حکومت سے ناراض ہونے والے اتحادی بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل سخت حکومتی حریف مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پہنچ گئے جہاں دونوں رہنماؤں نے سیاسی صورتحال پر بات چیت کی۔ اختر مینگل نے اپنے مطالبات سے مولانا فضل الرحمن کو آگاہ کیا جبکہ آئندہ کی مشترکہ سیاسی حکمت عملی پر مشاورت ہوئی۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ہر بات میڈیا کے سامنے نہیں رکھ سکتے لیکن یہ سچ ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ نزدیکیاں بڑھ رہی ہے، بات چیت چل رہی ہے جس دن ہم اپوزیشن میں آگئے تو اپوزیشن کو صحیح اپوزیشن کرکے چلائیں گے۔

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ریاست اور ریاستی ادارے اور حکومت دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیں کہ ہمارے مطالبات جائز نہیں، اگر ہمارے مطالبات غیر آئینی ہیں تو ہم کسی اور کا دروازہ کھٹکائیں، یا پیرو مرشد کی درگاہ پر جائیں۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ بی این پی کے فیصلے نے امید کی کرن پیدا کی ہے اور یہ فیصلہ دیگر اتحادی جماعتوں کے لیے بھی قابل تقلید ہے انہیں بھی اب بے باک انداز میں کلمہ حق کہہ دینا چاہیے، ضمیر کے خلاف کسی کی پیروکاری کرنا عزت رکھنے والے پاکستانی کی شایان شان نہیں۔

سربراہ جی یوآئی نے کہا کہ معاشی لحاظ سے جب آپ کا بجٹ منفی ہوجائے تو اس سے حکومت کی مقبولیت بھی منفی ہوجاتی ہے، جعلی وزیراعظم کواس بات کا اندازہ نہیں کہ ان کی اپنی مقبولیت بھی منفی ہوچکی ہے، ایسے مقبول لوگ پہلے بھی عوامی حمایت کے حامل نہیں تھے، کارکردگی کی بنیاد پر موجودہ حکمرانوں کی مقبولیت زمین بوس ہوگئی ہے، حکمرانوں کو اب مزید مسلط ہونے کا حق نہیں، انہیں اپنی ناکامی تسلیم کرکے فوری مستعفی ہوجانا چاہیے۔