عدالت سے استدعا ہے کہ علامہ افتخارالدین کو معاف کردیا جائے۔وکیل،فائل فوٹو
عدالت سے استدعا ہے کہ علامہ افتخارالدین کو معاف کردیا جائے۔وکیل،فائل فوٹو

جسٹس قاضی فائزکو دھمکیاں دینے والا شخص معافی نامہ لے کرعدالت پہنچا

ویڈیو بیان میں پاکستان کے سیاستدانوں، صحافی حامد میر اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دھمکیاں دینے والے شخص کو سپریم کورٹ کے عملے نے کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے روکا تو انہیں پولیس اور ایف آئی اے  نے حراست میں لے لیا تاکہ ان کا بیان ریکار ڈ کیا جاسکے۔

آغا افتخارالدین مرزا کے صاحبزادے سینئر صحافی حامد میر سے بھی معذرت کرتے رہے ، سپریم کورٹ کو اٹارنی جنرل کی طرف سے بتایاگیا کہ سائبر کرائم ایکٹ کے علاوہ دھمکیاں دیے جانے پر انتظامیہ دہشتگردی کی شق بھی شامل کرنے پر غور کررہی ہے ۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن پر مُشتمل دو روکنی بینچ  نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہلخانہ کو دھمکیاں دیئے جانے کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ دوران سماعت عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ  آپ کے ادارے یہ سب سُن رہے ہیں؟ یہ کیا ہورہا ہے؟ کُچھ کیا بھی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے شکایت درج کروائی ہے، یہ سائبر کرائم کا معاملہ تھا اِس لیے ایف آئی اے کو بھجوا دیا گیا ہے، ایف آئی اے اِس کیس کو سائبر کرائم ایکٹ دو ہزار سولہ کے تحت دیکھے گی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی نے آج تک ایسے معاملات میں کُچھ نکالا بھی ہے او رانکشاف کیا کہ  اِس سے پہلے بھی بہت سے ججز کی شکایات ایف آئی اے کے پاس ہیں لیکن آج تک کُچھ سامنے نہیں آیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے بینچ کے سربراہ کی بات آگے بڑھاتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ مُلک کے بڑے بڑے عہدیداروں اور اداروں کے نام لے کر بہت کُچھ کہا گیا، حامد میر صاحب کمرہِ عدالت میں موجود ہیں اُنکے بارے میں بہت کُچھ کہا گیا تو کیا ایکشن لیا ہے آپ نے؟ اٹارنی جنرل  حامد میر، مُحمد مالک، سابق صدرِ پاکستان اور سابق وزیرِ اعظم کا نام لینے کی تصدیق کی ۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اداروں کو اتنا وقت کیوں لگا نوٹس لینے میں؟ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ایف آئی اے نے نوٹس لے لیا ہے اور کاروائی شروع ہوگئی ہے۔ اِس موقع پر اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی درخواست عدالتی عملہ کے حوالے کرتے ہوئے بینچ کو بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی شکایت کے دو پیرا گراف ہیں ایک اِس ویڈیو کے بارے میں اور دوسرا شہزاد اکبر اور دیگر سے متعلقہ ہے۔

ویڈیو کے معاملہ پر حکومت سائبر کرائم ایکٹ کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کی شق چھ بھی لگانے پر غورکررہی ہے۔ چیف جسٹس نے مُختصر سماعت کے بعد حُکم لِکھوانا شروع کیا تو ایک خاتون وکیل نے کھڑے ہوکر استدعا کی کہ ویڈیو میں دھمکی دینے والے افتخار الدین مرزا تحریری معافی نامہ کے ساتھ اپنی پوزیشن واضح کرنے کورٹ روم نمبر ون آئے تھے لیکن عدالتی اسٹاف اور پولیس اُنکو اُٹھا کر لے گئی ہے۔بعدازاں  پولیس ذرائع نے بتایا کہ افتخارالدین مرزا اپنا بیان ریکارڈ کروانے ایف آئی اے کے دفتر روانہ ہوچُکے ہیں۔

چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے سٹاف سے پوچھا کہ اگرافتخار الدین سُپریم کورٹ میں موجود ہیں تواُن کو لے آئیے۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اور افتخار الدین مرزا کو دو جولائی کو سُپریم کورٹ میں پیش ہونے کا حُکم لِکھوا دیا۔

صحافی اسد علی طور نے لکھا کہ کمرہِ عدالت سے نکل کر سینئر صحافی حامد میر جا نے لگے تو قتل کی دھمکیاں دینے والے ملزم افتخار الدین مرزا کے بیٹے اور وکیل نے حامد میر سے معذرت کی۔ حامد میر نے افتخارالدین مرزا کے بیٹے سے بار بار استفسار کیا کہ وہ بتائیں اُن کے والد کی ویڈیو کِس نے بنائی اور کِس نے ایڈٹ کرکے سوشل میڈیا پر پھیلائی لیکن اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکی والی ویڈیو میں اپنا نام موجود ہونے کی وجہ سے سینئر صحافی حامد میر نے اپنے وکیل جہانگیر جدون کے ذریعے سوموٹو کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کروا دی ہے۔