عدالت سے استدعا ہے کہ علامہ افتخارالدین کو معاف کردیا جائے۔وکیل،فائل فوٹو
عدالت سے استدعا ہے کہ علامہ افتخارالدین کو معاف کردیا جائے۔وکیل،فائل فوٹو

مرزا افتخارالدین پرتوہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف ویڈیو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کرنے کے جرم میں مرزا افتخارالدین پرتوہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کردی ۔

افتخارالدین مرزا نے سپریم کورٹ سے معافی طلب کی جس کو مسترد کردیا گیا۔ ملزم نے عدالت کو یقین دہانی کروانے کی کوشش کی کہ معاف کردیا جائے تو آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔

چیف جسٹس پاکستا ن نے کہاکہ یہ معافی والا کیس نہیں ،آپ عدالت سے مذاق نہیں کرسکتے اس طرح تو پاکستان کا سارانظام فیل ہو جائے گا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آپ مسجد کے منبرپر وہ زبان استعمال کررہے تھے جو کوئی جاہل آدمی بھی نہیں کر سکتا۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ پہلے آپ بیان دیتے ہیں پھر سوشل میڈیا پراپ لوڈ کرتے ہیں،ایسی ویڈیوزاپ لوڈ کرکے پیسے بھی کماتے ہیں۔

اٹارنی جنرل پاکستان نے بینچ کو آگاہ کیا کہ مذکورہ معاملے پر توہین عدالت کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ اس کیس میں فرد جرم عائد کی جاتی ہے اور اٹارنی جنرل ابھی اس فرد جرم کا جائزہ لے کر سپریم کورٹ کو آگاہ کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ملزم سے استفسارکیا کہ اپنے دفاع میں کچھ کہنا ہے یا نہیں؟ ملزم کے وکیل نے کہا کہ ہمیں فرد جرم سے متعلق جواب کے لیے وقت دیا جائے۔ عدالت نے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت ملتوی کردی۔

عدالت نے مذکورہ کیس میں ایف آئی اے کی کارکردگی پرعدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔

ملزم مرزاافتخارالدین نے سپریم کورٹ میں معافی نامہ بھی جمع کرایا تھا جس کو مسترد کردیا گیا۔ معافی نامے میں کہا گیا کہ افتخارالدین عمومی طور پر مغرب کی نماز کے بعد اپنے چند طالب علموں سے حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے تھے اور چودہ جون کو ملزم کی زبان پھسل گئی۔

اس نے جسٹس قاضی فائز عیسی اور سپریم کورٹ کے بارے میں جو کہا کہ اس پر ندامت ہے جیسے ہی غلطی کا احساس ہوا سپریم کورٹ  میں معافی نامہ جمع کرایا۔

توہین عدالت کے مقدمے کا سامنا کرنے والے کی عمر67 ہے ۔افتخار الدین مرزا باقاعدگی سے ادویات لیتے ہیں جس کے سبب ان کے دماغ پربرا اثر پڑتا ہے اور بعض اوقات ہائپر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن میں بھی معاف کرنے کا کہا ہے۔ افتخارالدین مرزا یہ عہد کرتے ہیں وہ مستقبل میں کبھی ایسی بات نہیں کریں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے افتخار الدین کیس میں بیان حلفی جمع کرادیا،چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیاکہ کیا آپ نے بیان حلفی پڑھا؟،اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھے بیان حلفی نہیں ملا،چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ اسے پڑھیں اورجواب دیں، سپریم کورٹ نے سرینا عیسیٰ کابیان حلفی اٹارنی جنرل کے حوالے کردیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ایف آئی اے،سی ٹی ڈی کی رپورٹس پراظہارعدم اطمینان کرتے ہوئے کہاکہ یہ محکمے کیاکررہے ہیں؟معاملے کوسنجیدہ نہیں لے رہے،تحقیقاتی رپورٹ میں کوئی ٹھوس چیزموجودنہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ بیان حلفی میں بہت سنگین نوعیت کی باتیں ہیں ،بیان حلفی میں مرزاافتخار کاکنکشن شہزاداکبر اوروحید ڈوگر سے جوڑا گیا ،افتخار الدین کاکنکشن ان لوگوں سے کس بنیاد پر جوڑا گیا معلوم نہیں ۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ وحید ڈوگر ،جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف شکایت کنندہ تھا ،اٹارنی جنرل بیان حلفی کاجائزہ لے کر جواب دیں ،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ کیاایف آئی اے نے افتخار مرزا کے کنکشن کاکھوج لگایا؟،عدلیہ کیخلاف ایسا بیان کوئی اپنے طور پر نہیں دے سکتا ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں ہے ۔

سپریم کورٹ نے ملزم افتخار الدین پر فردجرم عائد کرتے ہوئے تحریری جواب جمع کرانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیدی،عدالت نے کہاکہ آپ کی جانب سے جمع کرائے گئے گزشتہ تحریری جواب سے مطمئن نہیں۔