پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی ایس ایل کی مالی بے قاعدگیوں کی محکمانہ انکوائری کا حکم دے دیا
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی ایس ایل کی مالی بے قاعدگیوں کی محکمانہ انکوائری کا حکم دے دیا

پی ایس ایل ون اور ٹو میں پونے 3ارب کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف

اسلام آباد: پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پہلے اور دوسرے سیزن میں 2 ارب 77 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
رانا تنویر کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان سپر لیگ ون اور ٹو کی خصوصی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں پی ایس ایل ون اور ٹو میں 2 ارب 77 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی ایس ایل میں تین ٹیموں اسلام آباد یونائیٹڈ، پشاور زلمی اور کوئٹہ کی فرنچائز کم قیمت پر فروخت کی گئیں جس سے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو 11 لاکھ ڈالر سالانہ کا نقصان ہوا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی سی بی نے فرنچائز مالکان کو سنٹرل پول سے طے شدہ رقم سے زیادہ ادائیگی کی اور پی سی بی نے فرنچائز مالکان کو 24 کروڑ 86 لاکھ روپے اضافی ادا کیے۔
احسان مانی نے اجلاس میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حالات مشکل تھے پی ایس ایل کا انعقاد ضروری تھا، پی سی بی پر پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
کمیٹی کے رکن نوید قمر نے کہا کہ پی سی بی خودمختار ہو گا لیکن اس کی مالک حکومت ہے۔ سیکریٹری آئی پی سی نے کہا کہ پی سی بی کہتا ہے کہ ہم ایک پائی حکومت سے نہیں لیتے، اس وقت ٹیموں کی نیلامی پر پیپرا قوانین لاگو نہیں تھے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پی ایس ایل کی مالی بے قاعدگیوں کی محکمانہ انکوائری کی ہدایت کرتے ہوئے سیکریٹری آئی پی سی کو ایک ماہ میں تحقیقات کرکے رپورٹ دینے کا حکم دیا۔
نور عالم خان نے کہا کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ پی سی بی میں کوئی چوری ہو گی تو ہم نہیں پکڑیں گے۔ چیئرمین پی اے سی نے پوچھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی خصوصی آڈٹ رپورٹ کیوں نہیں آئی؟۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے جواب دیا کہ میں صرف نگرانی کرتا ہوں، ادارہ کے ہر معاملہ میں مداخلت نہیں کرتا۔
پی اے سی نے چیئرمین پی سی بی کے جواب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ ادارے کے سربراہ اور ذمہ دار ہیں، غیر ذمہ دارانہ باتیں نہ کریں، ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا۔
چیئرمین پی اے سی نے رانا تنویر نے اجلاس ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ انکوائری رپورٹ آنے کے بعد آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔