کئی پاکستانی آہنی باڑھ سے گزرتے شدید زخمی ہوجاتے ہیں، ترکی پہنچنے تک زخم ناسور بن جاتے ہیں، یورپی ممالک سے ڈیپورٹ ہوکر آنے والے پاکستانی شہریوں کے سنسنی خیزانکشافات
کئی پاکستانی آہنی باڑھ سے گزرتے شدید زخمی ہوجاتے ہیں، ترکی پہنچنے تک زخم ناسور بن جاتے ہیں، یورپی ممالک سے ڈیپورٹ ہوکر آنے والے پاکستانی شہریوں کے سنسنی خیزانکشافات

انسانی اسمگلنگ کیلیے پاک ایران بارڈر کی خاردارباڑھ کاٹے جانے کا انکشاف

رپورٹ عمران خان
انسانی اسمگلروں نے پاک ایران بارڈر پر سکیورٹی اداروں کی جانب سے لگائی گئی خاردار آہنی باڑھ کو جگہ جگہ سے کاٹنا شروع کردیا ہے،جبکہ غیر قانونی طور پر پاکستان سے جانے والے شہریوں کے لئے انسانی اسمگلروں نے ترکی کے علاقے سیف میں خفیہ ٹھکانے قائم کردئے ہیں جہاں انہیں یرغمال بناکر تشدد کرکے تاوان وصول کیا جا رہا ہے ،انسانی اسمگلروں کے کارندے سرحد کے دونوں اطراف میں موجود ہیں جوکہ پنجاب ،خیبر پختونخواہ اور سندھ سے بڑی تعداد میں یورپی ممالک اور ترکی جانے کے خواہشمندوں کو گھیر کر قافلوں کی صورت میں پاک ایران کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں جمع کررہے ہیں جہاں سے کسی ایک مقام پر بڑے بڑے کٹرز کے ذریعے آہنی باڑھ کو کاٹا جاتا ہے جس کے بعد فوری طور پر قافلوں میں موجود افراد کو پاکستان سے ایران کے اندر ہانک دیا جاتا ہے یہ عمل اتنی سفاکی اور بیدردی کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ کئی افراد اس کٹی ہوئی آہنی باڑھ سے گزرتے ہوئے خاردار تاریں لگنے سے شدید زخمی ہوجاتے ہیں تاہم گہری چوٹیں لگنے اور خون نکلنے کے باجود انسانی اسمگلروں کے کارندے ان افراد کو رکنے نہیں دیتے اور مار مار کر آگے چلاتے رہتے ہیں تاکہ پکڑے نہ جائیں ایسی صورتحال میں نکالے جانے والے افراد کو کسی قسم کی مرہم پٹی یا ادویات بھی فراہم نہیں کی جاتیں کئی افراد جب ترکی تک پہنچتے ہیں تو ان کے زخم ناسور بن چکے ہوتے ہیں۔
ڈیپورٹ ہوکر آنے والوں کے بیانات کے مطابق سکیورٹی ادارے ایک مقام سے باڑھ کی مرمت کرتے ہیں تو انسانی اسمگلروں کے گروپس جنہیں کالعدم علیحدگی پسند عسکری متحارب گروپوں کی مدد حاصل ہوتی ہے دوسرے مقام سے باڑھ کاٹ ڈالتے ہیں ،یہ انکشافات حالیہ دنوں میں ترکی سے ڈیپورٹ ہوکر آنے والے ان افراد نے ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کی تحویل میں کئے ہیں جنہیں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے الزامات کے تحت حراست میں لے کر مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں امت سے گفتگو میں ان شہریوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ انسانی اسمگلروں کے گروپ سینکڑوں ایسے شہریوں کو ترکی کے علاقے سیف میں بنے ہوئے خفیہ ٹھکانوں پر رکھ کر ان پاکستان میں موجود ان کے اہل خانہ سے تاوان کی بھاری رقوم بھی منگواتے رہتے ہیں ایسے ہی ایک ٹھکانے سے بھاگنے میں کامیاب ہونے والے نوجوان کو گزشتہ ہفتے ترکی کے حکام نے حراست میں لے کر ڈیپورٹ کر کے واپس کراچی بھیجا جسے مزید تفتیش کے لئے ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی منتقل کیا گیا ۔
ایف آئی اے میں زیر تفتیش یاسر نامی ڈیپورٹی نے عدالت میں پیشی کے بعد امت سے گفتگو میں بتایا کہ اس کا تعلق پنجاب سے ہے جہاں پر وہ مزدوری کرتا تھا اسی دوران اس کو ایک شخص ملا جس نے اس کو بتایا کہ آج کل ترکی میں بہت روزگار ہے جبکہ ترکی جانا بھی آسان ہے اور وہاں سے دیگر یورپی ممالک یونان وغیرہ جانا بھی آسان ہے اس کی باتوں میں آکر اس نے جانے کی تیاری شروع کی جس کے بعد اس نے مذکورہ سب ایجنٹ کو 20ہزار روپے دئے جس نے آگے بات کر کے اس کو کوئٹہ پہنچایا اور بتایا کہ 10ہزار اس نے رکھے ہیں اور 10ہزار کوئٹہ والے کو بھجوادئے ہیں جہاں پر کوئٹہ کی بس سے اترنے کے بعد اسے گھر میں پہنچایا جہاں رات میں اسے ایک رکشے میں بٹھا کر آگے بھیج دیا اس رکشے والے نے اس کے پاس موجود پیسے چھین لئے اور اس کو کہا کہ کسی کو بتایا تو یہیں مار دوں گا جس کے بعد رکشے والے ان کو پنجگور کے بس اڈے پر پہنچا کر بس والے سے بات کی اور اس کو بس میں بٹھادیا جہاں سے پنجگور پہنچنے کے بعد اسے چھوٹے ٹرکوں میں بٹھایا گیا جن میں پہلے سے 30سے 35افراد موجود تھے یہ ٹرک 7سے 8گھنٹے چلتے رہے اور پہاڑیوں میں پہنچ گئے جہاں ایک مقام پر انہیں اتارا گیا اور یہاں لگی خاردار جالیوں والی باڑھ کو بڑے کٹر نما قینچیوں سے کاٹا گیا جس کے بعد انہیں جلدی جلدی اندر دوسری جانب اترنے کو کہا گیا یہاں سے کئی دن انہیں بھوکا پیاسا مختلف پہاڑیوں اور گھاٹیوں سے مار مار کر چلایا جاتا رہا جو نہیں چلتا تھا اس پر تشدد کیا جاتا تھا بعد ازاں انہیں ترکی میں اسی طرح سے داخل کرکے سیف کے علاقے میں ایک خفیہ گودام نما ٹھکانے پر چھپا دیا گیا جہاں پر تشدد کرکے ان سے گھر وں کے موبائل نمبرز لئے گئے ان نمبروں پر انٹر نیٹ کے ذریعے خریدے گئے لنکس پر ایکٹو کئے گئے واٹس ایپ کے ذریعے کال کرکے تاوان کی رقم منگوائی جاتی رہیں جس کے اہل خانہ رقم نہیں بھیجتے تھے ان پر تشدد کرکے ان کی آوازیں انہیں سنائی جاتی تھیں،یاسر کا مزید کہنا تھا کہ کئی دن یہاں گزارنے کے بعد ایک روز موقع پاکر وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور ایک پارک میں بیٹھ گیا جہاں اسے کئی روز تک ترکی کے مقامی لوگ کھانا وغیرہ دیتے رہے بعد ازاں اسے ترکی کے حکام نے واپس ڈیپورٹ کردیا ،یاسر کا کہنا تھا کہ جسے بھی بہتر مستقبل کے لئے بیرون ملک جانا ہے وہ قانونی راستے سے جائے ان انسانی اسمگلروں کے چنگل میں نہ پھنسے کیونکہ وہ جو اذیت دیکھ کر آیا ہے وہ ناقابل برداشت ہے اس راستے میں ہر وقت زندگی داؤ پر لگی رہتی ہے اب وہ یاد کرتا ہے تو سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لگتا ہے اس نے انسانی اسمگلروں کی جانب سے استعمال کئے جانے والے راستوں میں انسانی ہڈیاں ،کھوپڑیاں اور پنجرے بکھرے ہوئے دیکھے یہ وہی لوگ تھے جوکہ راستے میں بیمار اور زخمی ہوکر گر پڑتے ہیں اور چلنے کے قابل نہیں رہتے ایسے افراد کو انسانی اسمگلر بوجھ سمجھ کر خود قتل کرکے پھینک دیتے ہیں یا پھر ایسے افراد وہیں بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ کر دم توڑ دیتے ہیں ۔